’’کاش سب اسلامی ممالک ان سکھوں سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے‘‘


میانمار میں قاتل سوچی اور سفاک بدھ غندوئوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے روہنگیا مسلمان ابھی تک اسلامی ممالک سے کسی محمد بن قاسم کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آئے اور ان کے رستے زخموں پر مرہم رکھے مگر تاحال صرف برائےنام امداد اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی بھی عملی اقدام روہنگیا مسلمانوں کو تحفظ دینے اور ان کی امداد کیلئے مسلمان ممالک کی جانب سے

 نہیں دیکھا گیا۔بھارت سے سکھوں کی بڑی تعداد ان بے کسوں کی مدد کو جا پہنچی ہے، اور شاید کوئی مسلمان ملک یا ادارہ بھی اس مثال سے کچھ سبق سیکھ لے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سکھ رضا کاروں کے اس بڑے جتھے کا تعلق خالصہ ایڈ نامی تنظیم سے ہے جو گزشتہ اتوار بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر پہنچ کر وہاں موجود لاکھوں روہنگیا پناہ گزینوں کی امداد کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ خالصہ ایڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر امر پریت سنگھ کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی حالت زار انتہائی دردناک ہے،

ہم 50ہزار افراد کی مدد کا تخمینہ لگا کر تیاری کر کے آئے تھے مگر یہاں تو 3لاکھ سے زائد افراد موجود ہیں ان کے پاس کھانا ، پانی، کپڑے اور سرچھپانے کی جگہ جیسی کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ شدید آندھی اور بارش میں بھی ان کے لئے سرچھپانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے انہیں کھانے کی فراہمی شروع کردی ہے جبکہ ترپالوں کا بھی بندوبست کررہے ہیں تاکہ کم از کم انہیں بارش سے بچانے کا انتظام کرسکیں۔