حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ کراچی میں ایک تقریبِ نکاح میں ہم حاضر ہوئے، نکاح کے بعد ایک عالم سے ملاقات ہوئی، ہمارے دوستوں نے ان کا تعارف کروایا کہ جی یہ قرآن مجید کا کمپیوٹر ہے،

 

یہ سن کر اول تو میں نے دل میں سوچا کہ پتہ نہیں، کیوں ان کے بارے میں ایسا لفظ کہا گیا کہ یہ قرآن مجید کے کمپیوٹر ہیں، بس یہی کہہ دیتے کہ اچھے قاری ہیں، اچھے حافظ ہیں۔۔۔اتنے میں دس بارہ حافظ وہاں اکٹھے ہوگئے، وہاں پتہ چلا کہ ان کو قرآن مجید کا کمپیوٹر کیوں کہا جاتا ہے۔ایک شخص نے ان سے سوال پوچھا: حضرت! فَتَکُوْنَ کا لفظ قرآن مجید میں کہاں کہاں آیا ہے؟ فَتَکُوْن کا لفظ سنتے ہی انہوں نے فوراً کہنا شروع کر دیا کہ فلاں پارہ، فلاں رکوع اور فلاں آیت نمبر میں ایک مرتبہ ہے، دوسری جگہ پر فلاں پارہ، فلاں رکوع اور فلاں آیت نمبرمیں یہ لفظ آیاہے، پھر تیسری جگہ پربھی بالکل ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی،

غرض قرآن مجید میں فَتَکُوْنَ کا لفظ جہاں جہاں تھا، وہ اس کی نشان دہی بھی کرتے، پارہ، رکوع اور آیت نمبر بھی بتا دیتے اور اسی وقت یہ بھی بتا دیتے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ کہاں کہاں موجود ہیں، ان کو دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی، ہم نے بھی ان سے بڑے مشکل سوالات پوچھے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جتنے الفاظ پوچھے، انہوں نے ان سب الفاظ کا بالکل صحیح صحیح جواب دے دیا، یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ فقط قرآن مجید یاد ہی نہیں ہوتا بلکہ قرآن پاک کی اس آیت میں کون سا لفظ ہے، حافظ کو یہ بھی یاد رہ جاتا ہے۔حضرت انسؓ کی قسم ابن ماجہ میں حضرت انسؓ کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری پھوپھی نے ایک باندی کے دانت توڑ دیے،لوگوں نے معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی

مگر اس کے قبیلے والوں نے صاف انکار کر دیااور قصاص کا مطالبہ کیا، معاملہ حضورؐ کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتؐ نے حکم شرعی یعنی قصاص کا فیصلہ فرما دیا، یعنی اس کے بدلے میں ان کے بھی دانت توڑے جائیں، آپؐ کا یہ فیصلہ سن کر حضرت انسؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ کیا میری پھوپھی کے دانت ٹوٹ ہی جائیں گے، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے،اس کے دانت نہیں ٹوٹیں گے، رسول اللہؐ نے فرمایا انسؓ کیسی باتیں کرتے ہو

کتاب اللہ میں قصاص کا حکم آیا ہے۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں ان کی قوم راضی ہوگئی اور انہوں نے قصاص معاف کر دیا اور میری پھوپھی کے دانت بچ گئے، اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا، لو اقسم علی اللہ لابرہ، یعنی کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتے ہیں، یہاں یہ بات سجھ لیں کہ حضرت انسؓ کا یہ بات کرنا کہ دانت نہیں ٹوٹیں گے، نبیؐ کی حکم کی مخالفت کی بناء پر نہیں تھا بلکہ اللہ پر توکل کی وجہ سے تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کوپورا فرما دیا۔