شدّاد کی جنت


شدّاد کے دورِحکومت میں حضرت ہودؑ اللہ کے نبی تھے اور آپ ہمیشہ شدّاد کو ایمان کی دعوت دیتے تھے. ایک دن شدّاد نے پوچھا: اگر میں آپ کی باتوں پر ایمان لے آؤں تو اللہ مجھےکیا انعام دے گا؟

حضرت ہودؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے جنّت دے گا جس میں تو ہمیشہ چین سے رہے گا. شدّاد نے حضرت ہودؑ سے جنّت کے اوصاف پوچھے تو انہوں نے جنّت کی خصوصیات تفصیل سے بیان فرمائیں. یہ سن کر شدّاد بولا:مجھے اللہ کی جنّت کی کوئی ضرورت نہیں، ایسی جنّت میں خود ہی بنواؤں گا، اس دن سے شدّاد کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ وہ ایک ایسا شہر تعمیر کرائے جو ہر لحاظ سے جنّت جیسا ہو، اس نے اپنے بھانجے ضحاک کو جو ایران کا حاکم تھا، کہلا بھیجا کہ جتنا سونا چاندی تمہارے پاس جمع ہے وہ فوراًمیرے پاس بھیج دو. ضحاک نے ایسا ہی کیا. شدّاد نے پورے ملک میں اپنے کارندے روانہ کئے جو بہت بڑی مقدار میں سونا چاندی جمع کر کے لائے.

شدّاد نے جنّت بنانے کے لیے مُلکِ شام میں ایک صحت افزا مقام کا انتخاب کیا اور ماہر معماروں کے ذریعے وہاں ایک مضبوط اور مستحکم فصیل تعمیر کرائی، جس کے اندر سونے اور چاندی کا محل تعمیر کرایا اور اس کی دیواروں کو قیمتی جواہر سے سجایا، اس نے شہر کے وسط میں ایک ایسی نہر بنوائی جس کے پانی میں سنگریزوں کی بجائے ہیرے جواہرات بہتے تھے، سونے کےایسے درخت لگوائے جن کے خوشوں میں مشک و عنبر بھرا گیا تھا، جب ہوا چلتی تو مشک و عنبر کی خوشبو پورے شہر میں پھیل جاتی. بیان کیا جاتا ہے

کہ شدّاد نے محل کے چاروں طرف سونے کی اینٹوں سے بارہ ہزار کمرے تعمیر کرائے اور ہر کمرے کو یاقوت اور ہیرے جواہرات سے مزیّن کیا گیا اور اطراف و جوانب سے خوبصورت اور جوان عورتوں کو وہاں لایا گیا، یہ عظیم الشّان جنّت نُما شہر پانچ سو سال میں مکمل ہوا اور شداد کو اس کی تکمیل کی اطلاع دی گئی، اطلاع ملتے ہی شدّاد بہت بڑا لشکر لے کر اپنی جنّت کی جانب روانہ ہوگیا، ابھی شہر سے ایک منزل کے فاصلے پر تھا کہ اس نے ایک ہرن دیکھا جس کے پاؤں چاندی اور سینگ سونے کے تھے،ہرن کو دیکھ کر وہ لالچ میں آگیا اور اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے اپنا گھوڑا لگا دیا، بھاگتے بھاگتے وہ اپنے لشکر سے جدا ہو گیا،

اس نے شدّاد کو پکار کر کہا: شدّاد! تو نے عالیشان محل تعمیر کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب تو موت کے پنجے سے بھی آزاد ہوچکا ہے. یہ سُن کر شدّاد کا رواں رواں کانپنے لگا اور اس نے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا: میں ملک الموت ہوں. شدّاد نے کہا:اس وقت تمہیں مجھ سے کیا کام ہے اور میری راہ میں کیوں روڑے اٹکا رہے ہو؟ ملک الموت نے کہا: میں صحرا میں تیری روح قبض کرنے آیا ہوں. شدّاد نے کہا: مجھے کم از کم اتنی مہلت دے دو کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنّت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں. ملک الموت نے اجازت نہ دی، چنانچہ شدّاد گھوڑے سے گرا اور مرگیا اور اس کے لشکر نے ایک آسمانی چنگھاڑ سنی تو پورے کا پورا لشکر آن واحد میں ختم ہوگیا اور جنّت جانے کے بجائے ملکِ عدم پہنچ گیا.

ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا: روح قبض کرتے ہوئے تمہیں کبھی کسی پر ترس بھی آیا؟ ملک الموت نے عرض کیا: جی ہاں! دو دفعہ مجھے بڑا ترس آیا، پہلی دفعہ اس وقت جب سمندر میں ایک ماں اپنے شیرخوار بچے کے ہمراہ سفر کر رہی تھی، سمندر میں طوفان آیا، کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، وہ ماں ایک تختے پر اپنے نوزائیدہ بچے کو سینے سے لگائے سمندر میں ہچکولے کھا رہی تھی، اس وقت مجھے آپ کا حکم ملا کہ اس عورت کی روح قبض کر لی جائے چنانچہ میں نے اس عورت کی روح قبض کر لی

اور وہ بچہ اس تختے پر اکیلا رہ گیاپھر وہ تختہ ایک جزیرے پر جالگا اور دوسری مرتبہ مجھے شدّاد کی روح قبض کرتے ہوئے بڑا ترس آیا، وہ تیرا دشمن تھا مگر اس نے بڑی محنت سے جنّت تعمیر کرائی تھی اور تونے اسے دیکھنے کا موقع تک نہ دیا. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ملک الموت! تونے دونوں مرتبہ ایک ہی شخص پر ترس کھایا تھا، تختے پر جس بچے کو تونے دیکھا تھا ہم نے اس کی پرورش کی، اسے عزت دی، اسے اقتدار دیا اور وہ بدبخت ہمارا منکر بن بیٹھا اور ہماری جنّت کے مقابلے میں اپنی جنّت تیار کرنے لگا، در حقیقت شدّاد ہی وہ شیرخوار بچہ تھا جس کی ماں کی روح تو نے قبض کی تھی، خدا کے انکار کا یہ نتیجہ تو دنیا میں ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے.

..