اذان دینا اور نماز پڑھنا ممنوع تھا


اسپین کے سفر کے دوران جو چیز علامہ اقبال کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث بنی، وہ مسجدِ قرطبہ تھی جو مسلمانوں کے اسپین میں سات سو سالہ دورِ حکومت کے گواہ کے طور پر موجود تھی اور بڑی شان سے ایستادہ تھی۔ اس مسجد کو گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اقبال نہ صرف اس مسجد کو دیکھنا چاہتے تھے بلکہ یہاں نماز بھی پڑھنا چاہتے تھے،لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ اسپین کے قانون کے مطابق اس مسجد میں اذان دینااور نماز پڑھنا ممنوع تھا۔ پروفیسر آرنلڈ کی کوشش سے اقبال کو اس شرط کے

ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی اندر سے دروازہ مقفل کر دیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی اقبال نے اپنی آواز کی پوری قوت کے ساتھ اذان دی “اللہ اکبر، اللہ اکبر”۔ سات سو سال کے طویل عرصے میں یہ پہلی اذان تھی جو مسجد کے در و دیوار سے بلند ہوئی۔ اذان کے فارغ ہونے کے بعد اقبال نے مصلٰی بچھایا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ نماز میں آپ پر اس قدر رقت طاری ہو گئی کہ گریہ و زاری برداشت نہ کر سکے اور سجدے کی حالت میں بے ہوش ہو گئے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو آنکھوں سے آنسو نکل کہ رخساروں پر سے بہہ رہے تھے اور سکونِ قلب حاصل ہو چکا تھا۔ جب آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو یکایک اشعار کا نزول ہونے لگا، حتٰی کہ پوری دعا اشعار کی صورت میں مانگیہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضومیرینواؤں میں ہے میرے جگر کا لہوصحبت اہل صفا ، نور و حضور و سرورسر خوش و پرسوز ہے لالہ لبآبجوراہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیقساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزومیرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیرمیرا نشیمن بھی تو ، شاخنشیمن بھی توتجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشورتجھ سے مرے سینے میں آتش ‘اللہ ھو’تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغتو ہی مری آرزو ، تو ہی مری جستجوپاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمامتو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کوپھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کہ میںڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبوچشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظرجلوتیوں کے سبو ، خلوتیوں کے کدوتیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلاپنے لیے لامکاں ، میرے لیے چار سو!فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیاحرف تمنا ، جسے کہہ نہ سکیں رو برو