قصہ ایک عاشق کا


حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے میں حج کے بعد مدینہ منورہ گیا..ھم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا تاکہ روٹی کےٹکڑوں اور ھڈیوں کو جانور کھائیں..تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک خوبصورت نو دس سال کا بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھا رہا ہے..مجھے سخت افسوس ھوا.. میں بچے کو لیکر قیام گاہ میں آیا اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا جوغریبوں کا والی تھا..میرے اس برتاؤ سے بچہ بے حد متاثر ھوا.. میں نے چلتے وقت اس سے پوچھا.. “بیٹے ! تمھارے والد کیا کام کرتے ہیں..؟” اس نے کہا کہ میں یتیم ھوں..میں نے کہا..

“بیٹا ! میرے ساتھ ھندوستان چلو گے..؟ وہاں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا , عمدہ عمدہ کپڑے پہناؤں گا , اپنے مدرسے میں تعلیم دوں گا..جب تم عالم فاضل بن جاؤ گے تو میں خود تم کو یہاں لے کر آؤں گا اور تمھیں تمھاری والدہ کے سپرد کر دوں گا.. تم جاؤ اور اپنی والدہ سے اجازت لیکر آؤ..”لڑکا بہت خوش ھوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس واپس گیا.. وہ بیچاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پریشان تھی اس نے فوراً ہی اجازت دے دی.. بچہ فوراً واپس آ گیا اور مولانا صاحب کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا.. میری ماں نے اجازت دے دی ہے.. پھر پوچھنے لگا کہ وہاں چنے ملتے ہیں..؟ مولاناعثمانی صاحب نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں وافر مقدار میں ملتی ھیں..مولانا صاحب کا بیان ھے کہ میری انگلی پکڑے پکڑے مسجد نبوی میں وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹک کر رہ گیا.. سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کو دیکھااور مسجد کے دروازے کو اور پوچھا.. “بابا ! کیا یہ دروازہ اور روضہ مبارک بھی وہاں ملے گا..

“میں نے کہا.. “بیٹا ! اگر یہ وہاں مل جاتا تو میں یہاں کیوں آتا..”لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا.. میری انگلی چھوڑ دی اور بولا.. “بابا ! تم جاؤ.. اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہرگز ہرگز اس دروازے کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا.. بھوکا رھوں گا , پیاسا رھوں گا , اس دروازے کو دیکھ کر میں اپنی بھوک پیاس بجھاتا رھوں گاجس طرح آج تک بجھاتا رھا ھوں..” یہ کہہ کر بچہ رونے لگا اور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ گیا.. اللہ اکبر کبیرا..