“میت والے گھر کھانا کھانا – ایک رواج، ایک المیہ”


بخدا سارے رواجوں سے زیادہ برا رواج، میت کے گھر کھانا کھانا لگتا ہے۔ یقین کریں، جنازہ اٹھنے کے بعد جب میت کی بہو بیٹیاں آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکوں اور زرد رنگت کے ساتھ عورتوں میں چاولوں کی پلیٹیں تقسیم کرنے آتی ہیں تو معاشرتی بے حسی کا اس سے بڑا مظاہرہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ حد ہے اور تف ہے اس پتھر دل روایت پر جس کی زد میں اگر آتا بھی ہے تو کون؟ جس کا بھائی جس کی ماں جس کا باپ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا۔
دین اسلام ہمیں میت کے گھر والوں کا خیال رکھنا سکھاتا ہے۔ جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ “جعفر کے گھر والوں کا خیال رکھو۔” ایک جگہ آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا۔” جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاو۔” (مستدرک، مجالس المسلمین)

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا آج کا معاشرتی طرز عمل اس کے بالکل الٹ ہے۔ کجا کہ ہم میت کے گھر والوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کریں ہم خود وہاں سے کھا پی کر اور ڈکار مارتے ہوئے واپس آجاتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتی ہوں کہ میت والے گھر کھانا بالکل دیا ہی نہ جائے۔ لیکن اس کے لیے کچھ ضابطہ ہونا چاہییے۔ جو رشتہ دار دوردراز کے علاقے سے آئے ہیں ظاہری بات ہے ان کے آگے کھانا رکھنا عین اخلاقیات ہیں۔
لیکن یہ کھانا پکائے کون؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ ظاہری بات ہے میت کے قریبی رشتہ دار انتہائی غم کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ناقابل تلافی دکھ اور صدمے کے لمحات ہیں۔ ایسے میں کھانا پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروں کو پکوانا چاہیے اور دور دراز سے آئے مہمانوں کو دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں خود میت کے ورثاء کو پیار اور اصرار کے ساتھ کھانا کھلانا چاہیے۔ اس عمل سے جہاں ان کو اپنا آپ سنبھالنے میں مدد ملے گی وہیں ان کے دکھی دلوں میں یہ بات بھی جاگزیں ہو جائے گی کہ ہاں کوئی ہے جو ان کے غم میں ان کے ساتھ عملی طور پر کندھا ملا کر کھڑا ہے۔
ہمارے ایک چچاجان فوت ہوئے تو ان کی چند کولیگز تھوڑا لیٹ پہنچیں۔ لو جی! بے چارے تھکے ہوئے گھر والوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ فورا سے پہلے ان کے آگے گرم گرم بریانی کی ڈش اور پلیٹیں بمع فورک رکھی گئیں۔ کولیگز نے جب یہ پروٹوکول دیکھا تو انہوں نے بھی فرض عین سمجھتے ہوئے ایک ایک لیگ کیس اور چاول پلیٹوں میں ڈال لیے۔ جب معاشرہ کا یہ رخ سامنے آئے تو اخلاقیات کے پہلو بے معنی سے لگتے ہیں۔
کون سا افسوس کیسا افسوس، میت کے گھر تک جاتے جاتے ہم لوگوں کے منہ میں پانی میں آتا رہتا ہے کہ جی دیگی چاول کھائیں گے۔ دھڑا دھڑ پلیٹیں پکڑی جارہی ہوتی ہیں اور بچوں کو بھی الگ الگ بھری ہوئی پلیٹیں پکڑائی جارہی ہوتی ہیں۔ کوئی تھکے ہارے گھر والوں پر ترس نہیں کھاتا۔ ان کی جان تب ہی جا کر چھٹتی ہے جب آخری مہمان گھر سے رخصت ہو جائے۔

یہ عجیب و غریب رواج ہے۔ ہم نے جنازوں کو بھی دعوت طعام بنا لیا ہے۔ نئے کپڑے پہن کر جانا کوئی معیوب بات نہیں۔ انسان کو گھر سے نکلتے وقت صاف ستھرا اور خوشبودار لباس پہننا چاہیے۔ اعتراض مجھے کھانے کے اس شوق پر ہے جو میت کے گھر جا کر بھی ختم نہیں ہوتا۔
جیسے ہی میت کا رشتہ دار ہمارے ہاتھوں میں بریانی کی پلیٹ پکڑاتا ہے، ہم ایک کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔”رہنے دیں۔ ناشتہ لیٹ کیا تھا!” لیکن یہ رسمی جملے کہنے کے بعد ہماری پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ چند منٹوں میں پلیٹ خالی کر کے اپنے بچوں کو ڈانٹ رہے ہوتے ہیں۔ “دیکھو ذرا کھایا ہی نہیں تم نے۔ اب مجھے ختم کرنا پڑے گا۔”
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ہم صاحب استطاعت ہیں تو ہم میت کے گھر دیگ لے کر جاتے اور دور سے آنے والے رشتہ داروں کو اپنے ہاتھ سے کھانا دیتے۔ میت کے گھر والوں کو مکمل ریسٹ کرنے کا موقع دیتے۔ اگر صاحب استطاعت نہیں ہیں تو ہاتھ پاوں تو سب رکھتے ہیں۔ اٹھیں اور گھر والوں کا ساتھ دیں۔ ان کی مدد کریں۔ ان کا دوسرا ہاتھ بن جائیں۔۔
المیہ ہی تو ہے کہ ایک طرف گھر والے اکثر میت کی لمبی بیماری، پھر ہسپتال کے پریشانی بھرے آخری آخری چکر پھر صدمہ الگ اور اطلاع دینے کا دردناک کام الگ۔۔ تھکن سے چور چور ہو جائیں۔ اور پھر یہ قریب سے آنے والے رشتہ دار مہمان بن کے بیٹھتے جائیں اور آپ پوری رات کے جاگے ہوئے سرخ آنکھوں کے ساتھ میت کی چارپائی سے ٹیک لگائے بیٹھے سوچتے ہوں۔ “ساتھ والی پڑوسن کو لیگ پیس والی پلیٹ پکڑانی ہے ورنہ پورے محلے میں مشہور کر دے گی۔ ماں مری ہے پر چاول میں ایک بوٹی نہیں ڈال سکے۔”

میری نانی جان فوت ہوئیں (اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے) تو بڑے ماموں نے چکن بریانی کی دیگ پکوائی۔ بعد میں امی جی نے انہیں خوب سنائیں کہ فوتگی پر وہ بھی ماں کی وفات پر بریانی کون کھلاتا ہے؟ لیکن ماموں کا کہنا تھا۔ “میں جس سوسائٹی میں رہتا ہوں وہاں وفات کے موقع پر نہ صرف بریانی بلکہ زردہ اور کولڈ ڈرنک بھی پیش کی جاتی ہے۔ اگر میں بریانی بھی نہ کھلاتا تو محلے اور آفس کے دوستوں میں میری ناک کٹ جاتی۔”
اچھا! ہم تو فوتگی پر کھانا کھا کر آجاتے ہیں لیکن کبھی یہ سوچا کہ اتنی دیگیں پکوانے پر میت کے رشتہ داروں کو کتنا خرچہ ہوا؟ کتنا بوجھ پڑ گیا ان پر۔ پہلے ہی اباجی کے علاج پر پیسہ پانی کی طرح بہ رہا تھا اب فوتگی پر دیگوں کا خرچہ الگ۔ میں نے خود دیکھا۔ اندر اباجی کی میت پڑی تھی باہر بیٹے اور داماد بیٹھ کر حساب لگا رہے تھے کہ کتنے بندے آئیں گے اور دیگیں کہاں سے لانی ہیں جیسے کہ کوئی شادی ہو۔
اکثر اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایسے موقعوں پر نہ صرف میت کے گھر والوں کی مالی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہی ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔ ہماری ایک جاننے والی خالہ فوت ہو گئیں تو ان کی تدفین سے لے کر سب انتظامات ان کے پڑوسیوں نے کیے اور نہایت اچھی مثال قائم کی۔
غرض یہ کہ میت کے گھر جا کر کھانا کھانا نہ صرف اخلاقی بلکہ مالی لحاظ سے بھی انتہائی تکلیف دہ رواج ہے۔ لیکن ہم نے اسے پرکھوں کی روایت سمجھ کر اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اب اس کے ان گنت کانٹے ہمارے سینے میں چبھ چکے ہیں۔ اب اسے ختم ہونا چاہئے۔