ثمینہ کی کہانی


ثمینہ کی پیدائش ایسے گھر میں ہوئی جہاں بے حیائی ہی کمائی کا اہم ذریعہ تھی، بچپن سے اس نے جو کچھ دیکھا اس نے وقت سے پہلے ہی اسے جوان کردیا لیکن اس کے دل میں ایک کراہت سی ہوتی تھی ، اس نے بے
حیا خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھا ، اس کے گھر والوں نے اسے پڑھایا ، اچھی تعلیم دی کیوں کہ ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ بیٹی اچھی سوسائٹی کے لوگوں سے میل جول بڑھا کر گھر میں بے حیائی کی کمائی لائے گی نوٹوں کی ریل پیل ہو جائے گی ، جب وہ جوان ہوئی تو اس نے پردہ کرنا شروع کردیا ، اس کی مان کیلئے پردہ بم سے کم نہیں تھا، جس گھر میں ہر وقت لوگ بے پردہ ہوتے ہوں، جہاں بچے کو صرف ماں کا پتہ ہو باپ کون ہے کوئی نہ جانتا ہو، وہاں کوئی لڑکی پردہ کرلے تو شور مچ جاتا ہے،

شروع شروع میں اسے بڑی پریشانی ہوئی ، وہ عبادت گزار لڑکی تھی ، اس کے گھر میں آزان کی آواز نہیں آتی تھی وہ چھت پر جا کر آزان سنا کرتی تھی اسے بہت سکون ملتا تھا ، وہ سوچتی تھی کہ کاش وہ اس گھر میں پیدا نہ ہوتی تو کتنا اچھا تھا، کالج میں اس کے پاس کم ہی کوئی بیٹھتا تھا، سب اس کو برا سمجھتے تھے ، وہ بہت روتی کہ اس نے تو کبھی کسی کو پاس بھی آنے نہیں دیا لیکن کلاس فیلو کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں ، اگر اس کی پیدائش ایک برے گھر میں ہوئی ہے تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں ، تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے نوکری کا فیصلہ کیا لیکن وہ جہاں بھی گئی ہر ایک نے اس کو بری نظر سے دیکھا ۔

اسے لوگوں کی نظروں میں ہر وقت ہوس ، گندگی محسوس ہوتی تھی اسے لگتا تھا کہ جیسے لوگوں کی آنکھوں سے آگ نکل رہی ہے اور اس کے جسم کو جلا رہی ہے ، اس کے بھی ارمان تھے ، خواہشیں تھیں لیکن کون اس سے شادی کرتا، لوگ جب اس کے بارے میں جانتے تھے تو پھر دوبارہ بات بھی نہیں کرتے تھے ، ایک دن وہ کمرہ میں بیٹھی تھی اچانک اس کی ماں کی آواز آئی جو کسی سے کہہ رہی تھی کہ ثمینہ سے کوئی ملنے آرہا ہے بہت بڑی رقم ایڈوانس دے کر گیا ہے ، ثمینہ کیلئے یہ بات خنجر سے کم نہیں تھا اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے کہا کہ اے میرے مالک آج تک تیری اس بندی نے اپنے جسم کی حفاظت کی ہے ، جس طرح تو نے کہا اسی طرح کیا ہے ،

کانٹون پر زندگی گزاری لیکن اپنا دامن داغدار نہیں ہونے دیا ، اے اللہ تو ہی مجھے بچانے والا ہے ، ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کی ماں ہنستی ہوئی کمرے میں داخل ہوتی ہے اس کے ساتھ ایک شخص بھی اندر آتا ہے ، ثمینہ کا چہرہ ڈوپٹے میں چھپا ہوتا ہے ، ماں جیسے ہے اس شخص کو اپنی بیٹی کا چہرہ دکھانے کیلئے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہے ، ثمینہ کا سر ایک طرف ڈھلک جاتا ہے ، اللہ نے اس کو با حفاظت اپنے پاس بلالیا تھا جہاں اس کی عزت بھی محفوظ تھی اور کوئی ہوس بھری نگاہ سے دیکھنے والا بھی نہیں تھا