فوج سے استعفیٰ دے کر درجہ ولایت کو پہنچنے والے انتہائی معروف ولی اللہ نے نواز شریف کے بارے میں کیا پیش گوئی کی تھی جو اب پوری ہوئی ؟


کچھ پرانی تصاویر کے مطابق ایک معروف صوفی بزرگ جناب محترم برکت لدھیانویؒ نے میاں صاحب کے لیے دعا فرماتے ہوئے کہا تھا “جائو تمھیں سرداری سونپی” تم تین بار اقتدار میں آؤ گے اور صوفی صاحب کا کہنا درست ثابت ہوا . واضح رہےکہ تاجدارِ دارالاحسان حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ1911ءکو موضع برہمی ضلع لدھیانہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے.

آپؒ کے والد گرامی کا اسم مبارک حضرت میاں نگاہی بخش تھا. آپؒ نے اپنے وقت کے معروف بزرگ شاہِ ولایت حضرت شیخ سید امیر الحسن سہارنپوریؒ کے دستِ مبارک پر بیعت کی. آپؒ نے19 اپریل1930ءکو فوج میں شمولیت اختیار کر لیا. 1923ءمیں آپؒ انڈین ملٹری اکیڈمی کے وائی کیڈٹ منتخب ہوگئے. کور کمانڈر جنرل وِچ، آپؒ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے اور وہ آپؒ کی تقلید میں رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں کچھ نہ کھاتے پیتے تھے. فوجی ملازمت کے دوران آپؒ اپنے فرائض سے فارغ ہو کر اکثر و بیشتر کلیر شریف میں حضرت علاو¿ الدین علی احمد صابرؒ کے مزارِ پُر انوار پر حاضری دیتے اور وہاں ساری ساری رات مجاہدہ میں گزار دیتے. جوں جوں آپؒ کا سینہ صابری مے سے لبریز ہوتا گیا. آپؒ کی حالت روز بروز بدلتی گئی.


بالآخر آپؒ نے 22 جون1945ءکو فوج سے استعفیٰ دے دیا. اس وقت جنگ عظیم جاری تھی اور اس نازک وقت میں آرمی سے استعفیٰ برٹش حکومت سے غداری کے مترادف تھا، جس کی سزا کالا پانی، عمر قید یا پھانسی تھی. ابتداءمیں برٹش حکومت کی طرف سے آپ کو فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے طرح طرح کے لالچ دئیے گئے، لیکن جب آپؒ ان کے دام میں نہ آئے تو آپؒ کو زہر دے دیا گیا. خدا کی قدرت کہ آپؒ کو ایک قے آئی، جس سے زہر خارج ہوگیا. بعد ازاں آپؒ کو کورٹ مارشل میں بھی باعزت بری کر دیا گیا. فوجی وردی اتارنے کے بعد آپؒ نے عہد کیا کہ باقی زندگی ان کاموں میں صرف کروں گا. -1 ذکر اللہ-2 دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ-3 اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت .قیامِ پاکستان کے بعد آپؒ نے کچھ عرصہ گجرات میں قیام کرنے کے بعد حافظ آباد کے قصبہ سکھیکی میں کیمپ لگایا اور یہاں ایک سال تک مقیم رہے. بعد ازاں آپؒ نے سالار والا (موجودہ دارالاحسان) کو اپنی دینی، تبلیغی و رفاعی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جو جلد دنیائے اسلام میں دارالاحسان کے نام سے مشہور ہوگیا. اس مقام پر آپؒ نے ایک خوبصورت مسجد، دو چھوٹی مساجد ایک دینی درسگاہ. قرآن کریم محل، مینار بیاد اصحاب بدرؓ اور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا. جہاں ہزارہا مریضوں کو نہ صرف علاج معالجہ کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتیں، بلکہ ان کے خورد و نوش کا بھی اہتمام کیا جاتا اور اس کے معاوضہ میں ایک پیسہ تک وصول نہ کیا جاتا. اس طرح دارالاحسان میں روحانی علاج کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج بھی کیا جاتا.1984ءمیں باواجی سرکار فیصل آباد کے قریب دسوھہ سمندری روڈ پر تشریف لے گئے. اس مقام کو المستفیض دارالاحسان سے منسوب کیا گیا. یہاں بھی آپؒ نے ایک خوبصورت قرآن کریم محل اور ایک بہت بڑا فری ہسپتال قائم کیا. حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ ایک انقلاب آفریں شخصیت تھے، جنہوں نے خانقاہی نظام کو ایک نئی جہت دے کر اسے ترو تازگی بخشی. آپؒ نے عام سجادہ نشینوں کے برعکس کچی جھونپڑیوں میں ڈیرہ جما کر نہ صرف لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ ڈالی، بلکہ عمل و کردار کا ایسا انمول نمونہ پیش کیا، جس کے تذکرے رہتی دنیا تک ہوتے رہیں گے. وقت کے بڑے بڑے امرائ، رُو¿سا، شہنشاہ اور وزراءآپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے، لیکن کسی کو آپؒ کے آگے دم مارنے کی ہمت نہ ہوتی. بڑے بڑے حکمران، وزراءلاکھوں روپے جیبوں میں لے کر آپؒ کے حضور پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوتے،


لیکن آپؒ بے نیازی سے انہیں جواب دیتے ہوئے ایک پائی بھی قبول نہ کی اور فرماتے کہ جس خدائے بزرگ و برتر کی میں ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہوں. اُسی میرے مالک نے اس نظام کو چلانے کا بندوبست کر رکھا ہے. امریکہ کے ایک رفاعی ادارہ نے 1992ءمیں آپؒ کو 5 ارب روپے سے زیادہ مالی پیش کش کی، مگر آپؒ نے اسے بھی قبول نہ کیا. حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ نے عمر بھر اس اصول پر مداومت فرمائی کہ آج کا مال آج ہی ختم ہو. کل کی روزی کل ملے گی. نیز فرماتے کہ ہماری روزی پرندوں کی طرح ہے جو صبح گھونسلوں سے بھوکے اٹھتے ہیں، لیکن شام کو سیر ہو کر لوٹا کرتے ہیں. آپؒ کی زندگی اقبالؒ کے اس مصرع کے مصداق تھی: میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے