روک سکو تو روک لو


اگست 1990 میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) پاس لڑکی کنگ ایڈرورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور اس سے اپنےایڈمشن کی بات کرتی ہے. پرنسپل نے جب اس کے ایف ایس سی کے نمبرز دیکھے تو وہ 650کے قریب تھے جو کہ مطلوبہ میرٹ سے بہت کم تھے، چنانچہ پرنسپل نے اسے داخلہ دینے سے معذرت کرلی.

اس لڑکی نے اپنا رزلٹ کارڈ اٹھایا، دروازہ کی طرف بڑھی اور دروازہ کھول کر پرنسپل سے بولی، “ایڈمشن تو میں لے کر رہوں گی، روک سکو تو روک لو . پھر اس لڑکی کو اس کے امیر باپ نے پنڈی کے میڈیکل کالج میں سیلف فنانس میں ایڈمشن دلوایا اور پھر اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایڈمشن کے اگلے روز ہی اس کا مائیگریشن کا کیس بنوا کر پنڈی سے ڈائریکٹ کنگ ایڈورڈ لاہور منتقل کردیا جہاں کا میرٹ ان دنوں 900 کے قریب ہوا کرتا تھا.

یہ کنگ ایڈورڈ کالج کی تاریخ کی واحد مائیگریشن تھی کسی دوسرے کالج میں سیلف فنانس پر ایڈمشن لینے والے سٹوڈنٹ کی کنگ ایڈورڈ کالج میں ہوئی.آگے بڑھیں. جنوری 1991 کی ایک سرد شام تھی جب ماڈل ٹاؤن میں واقع ایک گھر کی انیکسی میں اس لڑکی کا والد اپنے دفتری امور کے سلسلے میں ایک میٹنگ میں مصروف تھا. وہاں موجود ایک فوجی وردی میں ملبوس نوجوان اس لڑکی کو پسند آگیا، لڑکی نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں. والدہ نے غصے سے ڈانٹ کر اسے چپ کروا دیا. لڑکی نے اپنے ماں کو غصے سے دیکھا اور کہا،” شادی تو میں اسی لڑکے سے کروں گو، روک سکو تو روک لو . . .”پھر اگلے چند مہینوں میں پتہ نہیں کیا گُل کھلے کہ اس کی امیر ترین شاہی فیملی ایک فوجی سے اپنی بیٹی کا رشتہ کرنے پر تیار ہوگئی.جب اس لڑکی کو رخصتی کیلئے اس کی والدہ گاڑی میں بٹھا رہی تھی تو اس نے اپنی ماں کو فاتحانہ نظروں سے یوں دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو، “میں نہ کہتی تھی، روک سکو تو روک لو . . 2013 میں اس لڑکی کو بغیر کسی کوالیفیکیشن کے، اس کے باپ نے 100 ارب روپے کے فنڈ کا انچارچ بنا دیا . معاملہ عدالت میں گیا، عہدے کیلئے مطلوبہ قابلیت اور اہلیت ثابت نہ ہوسکی تو عدالت نے اس لڑکی کو اس عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا. جب عدالت فیصلہ سنا چکی تو اس لڑکی نے ٹویٹ کیا کہ،فنڈز تو میں ہی تقسیم کیا کروں گی، روک سکو تو روک لو . پھر اس کے وزیراعظم باپ نے اسے پرائم منسٹر سیکریٹیریٹ میں ایک مستقل دفتر دلوا دیاجہاں وہ تمام وزرا کی درخواستیں وصول کرکے انہیں فنڈز جاری کرتی. ایسا کرتے وقت اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک طنزیہ سی مسکراہٹ رہتی ، جیسے وہ سپریم کورٹ سے کہہ رہی ہو کہ،دیکھا، میں نہ کہتی تھی، روک سکو تو روک لو . پھر یوں ہوا کہ اپریل 2016 میں پانامہ لیکس ہوگئے . عمران خان نے احتجاج کرتے ہوئے اس لڑکی کے والد سے استعفی کا مطالبہ کردیا. اس لڑکی نے ایک مرتبہ پھر ٹویٹ کیا کہ،ہم ہر قسم کی لیکس سے باعزت بری ہوجائیں گے، روک سکو تو روک لو . اس لڑکی کی قسمت خراب تھی کہ اس دفعہ مقابل کسی کالج کا شریف پرنسپل، یا اس کی بے بس ماں یا قانونی ضابطوں میں جکڑے جج نہیں بلکہ ایک ضدی اور اپنی دھن کا پکا عمران خان تھا . . . اس نے آگے سے یہ کہہ دیا کہ،میں تمہارے رُلاؤں گا ، بچ سکو تو بچ کے دکھاؤ .پھر پانامہ کیس ہوا، دو مہینے میں اس شریف خاندان کو ‘ گاڈ فادر’ اور ‘ سیسلی مافیا ‘ جیسے القابات مل گئے . قطری شہزادے کے خط کی شکل میں جو ظاہری شرافت تھی، وہ بھی مٹی میں مل گئی .جے آئی ٹی بنی اور ایک ایک کرکے شریف فیملی کے فرد کی طلبی کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں، “فلاں چور فلاں تاریخ کو ثبوتوں کے ساتھ حاضر ہو .”ایک دن اس لڑکی کی بھی طلبی ہوگئی .

جب وہ تفتیش کے بعد باہر آئی تو اس نے بڑے غرور سے کہا کہ، “نوازشریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنے گا، روک سکو تو روک لو “آج جے آئی ٹی کی رپورٹ جاری ہوگئی جس میں نوازشریف کو اس کی اولاد سمیت چور اور منی لانڈرر کا خطاب مل گیا اور نیب کو اس کے خلاف کاروائی کی سفارش کردی گئی،اب میں اس لڑکی سے کہتا ہوں کہ،تمہارا باپ نااہل ہو کر رہے گا، ” روک سکو تو روک لو “تمہارا سارا خاندان باقی ماندہ زندگی چوروں کی طرح چھپ چھپ کر گزارے گا کیونکہ جب بھی کوئی فرد باہر نکلا، لوگ اسے چور کہہ کر پکارا کریں گے، لوگوں کو ایسا کہنے سے “روک سکو تو روک لو “نوازشریف نے اس ملک کی تین نسلوں کی کمائی لوٹ کر اپنی تین نسلیں جوان کرلیں. اب شریف خاندان کی موجودہ اور آنے والے نسلوں کی عزت نیلام ہوگی، ” روک سکو تو روک لو “بچت کی صرف ایک صورت ہے، عوام اور اللہ ، دونوں سے معافی مانگ لو . . .توبہ کرسکو تو کرلو . . . ورنہ پھر جہنم کا عذاب تمہارا مقدر ہے . . . .جسے روکنے کی تمہاری اوقات نہیں!!!