حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ترکی کا دورہ کیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر چیزوں کے بارے میں بھی خوب چرچا رہا وہ سب سے زیادہ جس چیز پر سوشل میڈیا میں بحث کی گئی وہ ان کے بیٹھنے کا انداز تھا وہ مسجد میں ویسی نہیں بیٹھ سکے جیسے کہ طیب اردگان بیٹھے ہوئے تھے وہ ڈیلیگیشن میں ایسے نہیں بیٹھ سکے اور نہ ہی ان کے افراد ایسے توجہ رکھ سکے جیسے مخالف والے لوگ موجود تھے اس وجہ سے ان کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا گیا کہ ان کو اتنی تمیز نہیں ہے کہا گیا کہ ان لوگوں کو اتنی عقل نہیں ہے کہ جب آپ کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو کچھ اس سفارتی آداب ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ یہ سب باتیں ہیں اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں اور نہ ہی کوئی یہ سفر دیا تھا میں شمار ہوتے ہیں انسان ہمیشہ اسی طریقے سے بڑھتا ہے جیسے اس کو سکون ملتا ہے یا جیسے وہ پرسکون ہو کر بیٹھ سکتا ہے اگر وہ کرکے بیٹھ جائے اور ان کو سکون نہ ملے تو کرو بات کیسے کریں گے
اور اس کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ انہوں نے جو معاہدے کئے ہیں ان کو زیر بحث لایا جائے انہوں نے وہاں کیا معاہدہ کیا اس معاہدے کے کیا فوائد ہوں گے پاکستان کو اس سے کیا فائدہ ملے ترکی اور پاکستان کے مستقبل میں اس دورے کے کیا اثرات ہوں گے کہ ترکی اس بات پر راضی ہوجائے گا کہ پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کر سکے اور پاکستان کیا ترکی کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کر سکے گا جس کے بعد پاکستان کے بزنس کرنے والے لوگ باآسانی اپنی اشیاء اس مارکیٹ میں بحث کی یہ چیز ہے جو کہ زیر بحث لانے چاہیے لیکن چونکہ تنقید صرف کرنی ہوتی ہے اس لئے پھر ایسی باتوں کو تلاش کیا جاتا ہے تاکہ صرف ایک پیالی کے اندر طوفان برپا کیا جا سکے