ڈراموں نے پاکستان کو اخلاقی پستیوں کی انتہاء تک گرا دیا ہے


سال پہلے خبر آئی تھی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں نے آپس میں شادی کر لی اور اس خبر کو ٹی وی پر بھی دکھایا گیا تھا اور اس کے بارے میں بتایا بھی کیا تھا کہ انہوں نے کئی سے شادی کی اور ان کا تعلق کس شہر سے تھا ایک لڑکی کا تعلق لاہور سے تھا اور دوسری لڑکی کا تعلق کس ملک سے تھا ان دونوں نے آپس میں وہاں کے قانون کے مطابق شادی کی اسلام کے مطابق بالکل ہی حرکت ہے اور اس کی سخت ہے
حال ہی میں پاکستان کے اندر ایک دوسرا کیس سامنے آیا جس میں ایک لڑکی نے دوسری لڑکی کو پسند کیا اور اس کے ساتھ اس کی محبت ہو گئی جس کے بعد ایک لڑکی نے اپنے بال کٹوا دیے اور اس نے خود کو مرد کے طور پر ظاہر کیا اور ایک لڑکی جس کے ساتھ سکیں محبتیں اس کو لے کر گھر سے بھاگ گئے ان دونوں کا ارادہ تھا کہ وہ کسی این جی او کے مدد سے پاکستان سے باہر چلے جائیں

اور وہاں پر اپنی زندگی گزارے یہ واقعہ پاکستان کے جلالپورجٹاں کا ہے یہاں کی رہائشی دو لڑکیاں سمن اور کرن کو ایک دوسرے سے محبت ہوئی سمن کا کہنا تھا کہ اس کی عمر 20سال ہے کچھ عرصہ پہلے اس کا شوہر کسی حادثے میں جاں بحق ہو گیا جس کے بعد اس کی ملاقات کرن سے اس کے بھائی کی شادی کے موقع پر ہوئی اس کو کرن پہلی نظر میں پسند آئی اور اس کو دل دے دیا دونوں کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ وہ کسی این جی او کی مدد سے پاکستان سے بھاگ جائیں گے اور کینیڈا یورپ کے کسی ملک میں پناہ لے لیں گے اور وہاں پر اپنی باقی زندگی گزاریں گے لیکن پولیس کی بروقت کارروائی سے دونوں گرفتار ہوگی گرفتاری کی بات انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کو کسی اور نے نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑ کے گئی تھی اور یہ دونوں آپس میں باقی زندگی گزارنا چاہتی یاد رہے پاکستان میں ہم جنس پرستی کو قانون دینے اور اس کے لئے لوگوں کے جذبات کو نرم کرنے کے لیے بہت زیادہ تحریک چلائی جا رہی ہیں کبھی کسی پوش علاقے میں ہم جنس پرستوں کی پارٹی ہو رہی ہوتی ہے تو کبھی مخصوص علامت جو ہم جنس پرستی کے نشانات ہیں یا آپ اس کو جھنڈا بھی کہیں وہ ایک مخصوص پارٹی کے توسط سے پاکستان کے خیبر پختونخوا کے سکولوں کے دروازے پر آپ کو نظر آئے گا یہ لوگ کون ہے آپ ان کو جانتے ہیں اور ہم بھی بہتر طریقے سے جانتے اور آپ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں بجلی حکومت کس کی تھی اور ابھی کس کی ہے یہ لوگ ایک منظم سوچ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں اور میڈیا کے ذریعے سوشل میڈیا کے ذریعے اخبارات کے ذریعے سوشل قید رنگ کے ذریعے اس کام کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے