1976 سے یہ کام ہورہا ہے


انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے ذخائر کو کیسے برباد کر رہے ہیں جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے ۔ پاکستان کےپہاڑی علاقوں سے نکلنے والا قیمتی پتھر جسے ہم جیم سٹون بھی کہتے ہیں کیسے بے دردری سے باہر بھیجا جاتا ہے جس پر انڈیا مہر لگا کر باہر کے ممالک میں بیچتا ہے ۔لیکن اس کو مکمل طور پر ہم ایک انڈسٹری نہ بنا سکے ۔ اس کے علاوہ بے شمار وسائل ایسے ہیں جو حکومت کی عدم دلچسپی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہم ضائع کرتے جا رہے ہیں ۔ اگر بہت زیادہ بھی کسی چیز کے لئے ایکشن لے لیئا جائے تو اس کے لئے ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے جو صرف کمیٹی کی حد تک ہی رہتی ہے البتہ اس کا کوئی فائدہ نقصان نہیں ہوتا ۔


آبی ذخائر کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے غیر استعمال شدہ دریاؤں کے پانی کے سمندر میں اخراج سے پاکستان کو سالانہ 29 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹر محمد یوسف کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی ذخائر میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے پنجاب کے رکن راؤ ارشاد علی خان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم نے ڈیم نہیں بنائے تو ہم اور ہماری آنے والی نسل بھوک سے مرجائے گی۔


کمیٹی نے پانی کے بہاؤ کی معلومات کے صحیح تعین کے لیے ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کے لیے جون تک کنٹریکٹ دینے کے مرحلے کو مکمل کرنے اور بلوچستان سے ارسا کے رکن کے فوری تقرر کا حکم دیا۔اس سلسلے میں آگے کیا پیش رفت ہوتی ہے۔ ہم آپ کو آگاہ کرتے رہیں گے ۔ امید ہے آپ کو ہماری پوسٹ پسند آئی ہو گی دوستوں کیساتھ شئیر کرنا نہ بھولئے ۔