حمزہ شہباز کی شیطانی چالیں


ساہیوال کا دردناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک خاندان کے چار افراد کو بیدردی سے گولیاں ماردی گئیں اور بجائے اس کے کہ جن لوگوں نے یہ کروائی گئی تھی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی اور ان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا الٹا ان لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا لوگوں کے دباؤ کے بعد اور قانونی طور پر احتجاج کرنے کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی آفر کی گئی اور کہا گیا کہ یہ لوگ تفتیش کریں گے کہ سارا معاملہ کیا تھا تو شیش کا ابتدائی نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے خلیل اور اس کی فیملی کو تو بے گناہ قرار دیا لیکن ذیشان ایک داڑھی والا تھا اس کو دہشت گرد قرار دیا اور کہا کہ اس کے ساتھ رابطے اور اس کی کچھ تصویریں بھی یہ دہشت گردوں کے ساتھ تھی اور یہ ان کے ساتھ رابطے میں تھا اور بڑی کروائی کرنا چاہتا تھا ابتدائی رپورٹ دینے کے بعد کہا کہ ان کو مزید ایک مہینہ چاہیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے ان کو اغوا کار قرار دیا گیا اس کے بعد ان کو دہشت گرد کہا گیا اور جب بات کھل کر سامنے آئی تو یہ کہا گیا

کہ یہ دہشت گردوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اس کی گاڑی کے آگے پیچھے وہ گاڑیاں نظر آئیں جو کہ دہشتگردی کی کاروائی میں نظر آئی تھیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوئی تھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک شخص جو کہ فیملی کے ساتھ سفر کررہا ہے کیا اس کو ایسے جان سے مارا جا سکتا ہے کیا قانون یہ تقاضا نہیں کرتا کہ اس کو پابند سلاسل کیا جائے اور اس کی بارے میں مکمل ترجمہ کرنے کے بعد اس کو سزا سنائی جائے کیا اس کو زندہ نہیں پکڑا جاسکتا تھا وہ شخص جو کہ لاہور کے ایک مصروف جگہ پر رہائش پذیر ہے اور اس کے گھر کے نام کی تختی لگی ہے اور اس کا بھائی خود پولیس میں ہے کہ اس کو گرفتار کرنے کے لیے یہ کروائی کرنے ضروری تھی