ڈاکٹر شاہد مسعود کی یہ بات بالکل درست ثابت ہونے جارہی ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے کہ پاکستان کے اندر بھی ایسے اگر گروہ موجود ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد ان کی ویڈیوز بنا کر بیچ دیتے ہیں ایسے بہت سارے لوگ پکڑے گئے ہیں جن کے پاس سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی ویڈیوز موبائل اور لیپ ٹاپ میں موجود تھی اور باقاعدہ وہ اس کو بیچتے بھی تھے قصور میں جب یہ واقعہ پیش آیا بچوں کی بیلنس سامنے آنے لگی تو اس وقت خبر آئی تھی کہ مقامی ایم این اے اور دوسری سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ وہاں کی کچھ فلاحی شخصیات اور پولیس کے کچھ افسر بھی اس سارے معاملے میں ان کا ساتھ دے رہے تھے کراچی میں حال ہی کے اندر ایک شخص پکڑا گیا ہے
جس کے پاس کئی ہزار کی تعداد میں ویڈیوز موجود تھی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات بالکل درست تھی جو انہوں نے کہی تھی کہ پاکستان کے اندر ڈارک ویب کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور یہ لوگ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کو بڑے لوگوں کیکی سرپرستی حاصل ہے ۔ اس کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی یا نہیں ابھی تک کوئی معاملہ اس قسم کا سامنے نہیں آیا ۔ زینب قتل کیس کے بعد جس تیزی کے ساتھ یہ کاروائی شروع ہوئی تھی اس سے محسوس ہو رہا تھا کہ اب بہت جلد اس گینگ کا ملک بھر سے خاتمہ ہو جائے گا ۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت سارے ایسے کیس سامنے آچکے ہیں ۔ حال ہی میں فریال نامی بچی کا ریپ کے بعد قتل ہو ا اور ایسے ہی ایک ذہنی معذور بچے کو جنسی زیادتی کے بعد بہت بے دردی سے قتل کر دیا گیا ،کہ اس کا سر کہیں پر دھڑ کہیں پر اور دوسرے اعضاء ابھی تک معلوم نہ ہو سکے ۔