پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ملک ریاض اور آصف علی زرداری جیسا بندے کو جج نے بلایا اور ان سے تفتیش کی لیکن میڈیا کی غلط بیانی کی وجہ سے کیس میں دہائی کمزوری آچکی ہے اور لوگوں کا اعتبار بھی عدالتوں سے اٹھ چکا ہے گزشتہ سال کے آخری دن ملک ریاض کو چیف جسٹس نے بلایا اور ان سے کہا یہ بتائیں آپ کا کیا کریں ملک ریاض نے کہا کہ آپ جو حکم کریں میں کروں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ آپ ملک کا لوٹا ہوا ایک ہزار ارب روپیہ قومی خزانے میں واپس جمع کرائیں تو ہم آپ کو جعلی اکاونٹ کیس میں بری کر دیں گے جس پر ملک ریاض نے کہا کہ اتنا تو میں نے کمایا نہیں یہ پیسہ میں کہاں سے دوں اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ چلے ہم آپ کو 500 ارب کا کہتے ہیں آپ یہ جمع کرادیجس کے بعد ملک ریاض نے کہا کہ میرے بیٹے کا گھر آپ لے لیں اور وہ بڑا اچھا اور خوبصورت گھر ہے اور بڑی خوبصورت جگہ پر ہے
اور کھلی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں اس گھر سے مجھے کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا تو پھر اس کے بعد ملک ریاض نے کہا کہ نہیں کر سکتا لیکن میڈیا نے اس بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور کہا کہ چیف جسٹس نے دراصل ملک ریاض سے ایک پلاٹ کا سودا جیسا کام کیا ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ چیف جسٹس ایک پلاٹ خرید رہے ہیں اور ملک ریاض اس کو نہیں بھیج رہے اس کی وجہ سے چیف جسٹس کا خوب مذاق اڑایا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان میں صرف طاقتور کی سنی جاتی ہے حالانکہ بات اس کے بالکل بر عکس تھی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس جمع کرائے تو ہم آپ کو بری کر دیتے ہیں لیکن اس کو ایسا پیش کردیا گیا گویا کہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ لینے کے بجائے ایک دل کی جا رہی ہے