ان چینلز کیساتھ کیا ہونیوالا ہے ؟


اس حکومت کے آنے کے بعد جہاں انہوں نے کرپشن کے خلاف ایک تحریک چلائی اور مستقل بنیادوں پر ان کے لیے قانون سازی شروع کی ہیں اور مجرموں کو سزائیں دی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کو لگام ڈالنے کے لئے اور میڈیا کو پابند کرنے کے لیے ان کے سرکاری اشتہارات پر بھی پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے چینلز کو بیتہاشا نقصان بھی ہو رہا ہے اور پرنٹ میڈیا کو بھی سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسے اخبار جو کہ لاکھوں کی تعداد میں اپنی ایڈیشنز نکالا کرتے تھے انہوں نے کئی سارے اخبارات بند کر دیے ہیں یہ کس طرف جا رہی ہیں اور کیا ہونے جا رہا ہے یہ تو مستقبل میں ہی پتہ چلے گا لیکن اشارہ اتنا ہے کہ حکومت نے پوری کوشش کی ہے کہ کوئی بھی ایسی بات یا کوئی بھی ایسا واقعہ یا کوئی بھی ایسی چیز کی جو حکومت کے خلاف جا رہی ہو اس کو روکا جا سکے اس کے لیے انہوں نے معاشی طور پر ان میڈیا اداروں کو لگام ڈالنے کی کوشش کی اس سے پہلے کی حکومتوں نے میڈیا پر بے تحاشہ خرچ کیا اور انہوں نے اربوں روپے کے اشتہارات میڈیا پر دی ہے میڈیا ایک منٹ کے کتنے چارجز کرتا ہے

یہ ان کے ریڈنگ پر منحصر ہوتا ہے مسئلہ جیو ٹی وی ہے اس کو سب سے پاکستان میں زیادہ دیکھا جاتا ہے وہ ایک منٹ کے ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ چارج کرتا ہے جب کہ دیگر چینل بھی ایسے ہیں جو اپنے حساب سے ڈیٹ لگاتے ہیں موجودہ حکومت نے سب سے پہلے اشتہارات دینا بند کر دیا جس کے بعد تمام ٹی وی مالکان کو بلا کر ان سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام ہوئے جس کے بعد حکومت نے ایک تیسری پارٹی کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ ان چینل کا ریٹ چیک کریں اور ان کے ساتھ ان کی ریٹنگ بھی چیک کریں اور اس کی مناسبت سے ان کا کیا ریٹ بنتا ہے وہ ہمیں بتائیں پارٹی نے جو بتایا ہے وہ انتہائی دلچسپ ہے کے ٹو دیکھا جائے تو یہ 60 سیکنڈ کے اشتہار کے ڈیڑھ لاکھ روپے چارج کرتا ہے جبکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک منٹ کے آئین کے زیادہ سے زیادہ چارجز چھ ہزار روپے بننے چاہیے نظر حکومت نے انہیں چارج شیٹ ان کے ہاتھ میں تھما دی ہے اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہمارے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک اور اطلاع دی ہے ان کا کہنا تھا کہ اب سوشل میڈیا جو ہے یہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے آگے نکل گیا ہے اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ اس کو بھی ہم اپنی گرفت میں لینے تو حالات کس طرف جائیں گے کیا یہ پاکستان کے لیے مفید ثابت ہوگا آیا ایک طرح سے آزادی پر قدغن سمجھا جائے گا اس کے بارے میں بہت جلد معلوم ہو جائے گا