پاکستان کی تاریخ میں یہ منظر بھی پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ کارکردگی وزارت کے حوالے سے چیک کی جا رہی ہے ورنہ آج سے پہلے ادوار میں کارکردگی کی بنیاد کچھ اور ہو ا کر تی تھی پہلے کارکردگی کی یہ بنیاد ہوتی تھی کہ کس وزیر نے اپنے وزیر اعظم کو کتنا ڈیفنڈ کیا اور مخالف پارٖٖٹیوں یا شخصیات پر کتنا زہر اگلا ہے وزیراعظم نے اپنے وزرا کی کارکردگی کی رپورٹس خود چیک کیں اور جن کی کارکردگی اچھی تھی انہیں شاباش بھی ملی اور جن کی کارکردگی اچھی نہیں تھی انہیں ڈانٹ بھی پلائی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ نے اپنی کارکردگی درست نہ کی تو آپ سے وزرات کا قلمدان چھینا بھی جا سکتا ہے اس پر ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے ہمارا وزیراعظم وہ ذرا و کی کارکردگی تو دیکھ رہا ہے اس لئے حکومتوں میں تو کابینہ کے اجلاس ہی نہیں ہوتے تھے
کارکردگی دیکھنا تو بہت دور کی بات ہےجبکہ ناقدین بھی تنقید سے باز نہ آئے ایک صارف کہنا تھا کہ جبکہ ایک صارف نے تو یہ بھی کہا کہ احتساب کا عمل تب کامیاب سمجھا جائےگا جب اس کا آغاز جہاز ترین علیمہ نیازی اسد عمر سے ہو گا۔ وعدے۔ دعوے ۔ نعرے تقریریں ۔ بیانات تو ہم ستر سال سے سنتے آئے ہیں۔ اور ان کی کار گردگی غنڈا گردی دہشتگردی الزام گردی دھرنا گردی اور اپنے قریبی چہیتے لوگوں کو نوازنا گردی تو سب جانتے لیکن کچھ لوگ ایک آنکھ ایک کان بند کر چکے ہیں۔ کسی حکومت کی کارگردی 100 دن میں جانچنا تو ناانصافی ہے لیکن ان لوگوں کی احمدی اور قادیانی گردی سب کے سامنے ہے۔دوستو آپ کو ہماری ویڈیو پسند آئی تو دوستوں کیساتھ شئیر کیجئیے اور کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار بھی ضرور کیجئیے