کیا مولانا فضل الرحمان عمران خان کو شہید کروانا چاہتے ہیں؟ صحافی حامد میر کا اپنے کالم میں اہم انکشاف


اپنے آپ کو بہت سیانا سمجھنے والے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ سیانے جب بھی بولتے ہیں تو ہمارے دل ڈولتے ہیں۔ بات سیاسی اختلاف سے بہت آگے جاچکی ہے۔ کچھ سیاستدانوں کی آنکھوں میں خون اور لہجوں میں انتقام کی بو ہے۔وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو نہیں چھوڑیں گے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیب ایک آزاد و خود مختار ادارہ ہے اور نیب کی کارروائیوں سے ان کی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، اگر یہ درست ہے تو وہ یہ کیسے کہتے ہیں کہ میں اپنے سیاسی مخالفین کو چھوڑوں گا نہیں؟ میں جب سے صحافت میں آیا ہوں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام ہی دیکھ رہا ہوں لیکن اب معاملہ سیاسی انتقام سے آگے نکل رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو کافی دن پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مولانا صاحب اور انکے صاحبزادے اسعد محمود کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔ نہ عمران خان موت سے ڈرنے والے ہیں نہ مولانا فضل الرحمٰن کسی خوف کا شکار ہیں بلکہ مولانا صاحب کے لب و لہجے میں تلخی غیر معمولی حد تک بڑھ چکی ہے جو بھی انہیں اعتدال کا مشورہ دیتا ہے مولانا اسے کہتے ہیں عزت اور ذلت، زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ان سے کہہ دو جو کرنا ہے کرلیں۔ چند دن پہلے مولانا صاحب نے مجھے کہا کہ میں تو خود کئی خودکش حملوں کا سامنا کرچکا ہوں میں کسی مخالف کو قتل کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، پھر کہا اگر عمران خان سے ملاقات ہو تو میرا پیغام دے دینا کہ مجھے آپ کو شہادت کا رتبہ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بھلا ہو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا جنہوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور وزیر اعظم عمران خان میں غلط فہمیاں ختم کرنے کی ٹھان لی ہے اور وہ بہت جلد مولانا سے ملاقات کرینگے۔عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن میں سیاسی اختلاف کے خاتمے کا فی الحال کوئی امکان نہیں لیکن دونوں میں یہ غلط فہمی ختم ہونی چاہئے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کی جان لینا چاہتا ہے کیونکہ ایسی غلط فہمیوں کا ہمارے اصل دشمن بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں پاکستانی سیاست، فوج، پولیس اور ایف سی سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات کو قتل کیا گیا۔ ہمیں اکثر اوقات ایسے واقعات کے پیچھے افغانستان کا ہاتھ نظر آیا۔ افغانستان میں کوئی بھی اہم حکومتی عہدیدار مارا جائے تو الزام پاکستان پر لگادیا جاتا ہے حالانکہ اب تو خود بہت سے افغان رہنما کہتے ہیں کہ داعش کے پیچھے پاکستان نہیں کوئی اور ہے۔گزشتہ دنوں افغان صوبے قندھار میں پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق اچکزئی کو قتل کردیا گیا۔ اس قتل کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی جسکے بعد افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو فون کیا اور قاتلوں کی گرفتار میں تعاون کیلئے کہا۔ عبدالرازق اچکزئی کو گزشتہ سال ہیومن رائٹس واچ نے ٹارچر انچیف قرار دیا تھا۔ چند ماہ پہلے ان پر قندھار کے گورنر ہائوس میں حملہ کیا گیا جس میں وہ بچ گئے لیکن متحدہ عرب امارات کے سفارتکار مارے گئے۔ اس مرتبہ وہ اپنے ہی ایک محافظ کی گولیوں کا نشانہ بن گئے لہٰذا حیرت ہے کہ افغان حکومت کو اس قتل کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ جون 2018ءمیں پکتیا کی اسپیشل پولیس فورس کے سربراہ کرنل عزیز اللہ کاروان کو کابل میں قتل کیا گیا۔ ان پر38حملے ہوچکے تھے۔ اورزگان صوبے کے پولیس سربراہ مطیع اللہ خان کو بھی کابل میں مارا گیا۔ تخار صوبے کے پولیس چیف کو دو جرمن فوجیوں کے ہمراہ تعلقان میں مارا گیا۔ وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے والد استاد برہان الدین ربانی پر حملہ کرنیوالا ملا ارسلا رحمانی کی گاڑی میں بیٹھ کر آیا تھا۔ بعد ازاں ارسلا رحمانی بھی قتل ہوگئے۔افغان انٹیلی جنس اپنے ملک میں دہشت گردی کے ہر واقعہ کا الزام پاکستان پر لگادیتی ہے حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ بہت کم ہوچکا ہے۔ افغان طالبان کے رہنمائوں ملا عبید اللہ اور استاد یاسر کی پاکستانی حراست میں موت اور ملا برادر کی گرفتاری کے واقعات سے افغان طالبان اور پاکستانی ریاست کے درمیان غلط فہمیوں کی جو خلیج پیدا ہوئی، اس میں کمی نہیں اضافہ ہوتا رہا۔ ملا اختر منصور پر ڈرون حملے اور حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سے نکالنے کے بعد افغان طالبان کا پاکستان پر اعتماد مزید کم ہوگیا۔ اب ایک واجبی سا تعلق ہے جو شاید دونوں کی مجبوری ہے لیکن اس تعلق میں پہلے والی بات نہیں۔ افغان حکومت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف امریکی حکومت کا نمائندہ زلمے خلیل زاد قطر میں طالبان سے مذاکرات کرتا ہے۔ دوسری طرف یہی طالبان قندھار میں عبدالرازق اچکزئی پر حملہ کیوں کرتے ہیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے۔ایک طرف افغان حکومت طالبان کو مذاکرات کی دعوت دیتی ہے ، دوسری طرف سرکاری علماء سے ان پر کفر کے فتوے لگواتی ہے، غزنی میں نورالمدارس الفاروقیہ (حضرت صاحب کا مدرسہ) جیسے پرانے مدرسوں پر چھاپے مارتی ہے اور افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء پر آمادگی ظاہر نہیں کرتی تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ ’’وار اکانومی‘‘ کو جاری رکھنا چاہتی ہے کیونکہ وار ختم ہونے سے وار لارڈز کا دھندہ بھی ختم ہوسکتا ہے۔ افغان طالبان نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن وہ کابل کے حکمرانوں کی بجائے واشنگٹن کے حکمرانوں سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ گزشتہ عیدالاضحی پر امارت اسلامیہ کے سربراہ مولانا ہیبت اللہ اخندزادہ نے یہ کہا تھا کہ موجودہ افغان جنگ امریکہ کی پیداوار ہے اگر امریکہ امارت اسلامیہ سے براہ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتا ہے تو یہ ایک قابل تحسین عمل ہوگا۔ حقیقی، شفاف اور نتیجہ خیز مذاکرات ہماری پالیسی کا حصہ ہیں ان میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات میں صرف وہ فیصلے قابل قبول ہوں گے جن میں ہمارے اسلامی اہداف پورے ہوں، نیز افغانستان کی آزادی اور جنگ کے خاتمے کی حقیقی ضمانت موجود ہو۔ یہ طے ہے کہ جب تک امریکہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان نہیں کرتا افغانستان میں امن کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی لہٰذا پاکستان سے یہ امن مانگنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

افسوس کہ صدر ا شرف غنی ہمیشہ پاکستان میں افغان طالبان کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو، بشیر بلور، شجاع خانزادہ، ہارون بلور ، مولانا حسن جان، مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی، ایس ایس پی چوہدری اسلم، صفوت غیور، حامد شکیل صابر، ڈی آئی جی احمد مبین، فیاض سمبل، اشرف نور، ملک سعد، لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ، میجر جنرل عمر بلال اور میجر جنرل فیصل علوی سمیت ان ہزاروں پاکستانیوں کا قتل نظر نہیں آتا جن کے پیچھے وہ لوگ تھے جن کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔ پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے کے لئے میڈیا کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک میں غلط فہمیاں ختم نہ ہوئیں تو کوئی تیسرا انہیں آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا رہے گا۔ قندھار میں عبدالرازق اچکزئی کے قتل کے بعد یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ کوئی تیسرا دشمن پاکستان میں کسی اہم شخصیت پر حملہ کرانے کی سازش کریگا تاکہ ایک طرف پاکستان میں داخلی بحران پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف پاکستان اور افغانستان میں بھی الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہوجائے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہ بنائے۔ اپنے آپ کو بہت سیانا سمجھنے والے دشمنوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہ بنیں۔ مولانا فضل الرحمٰن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو قریب لانے کے بعد عمران خان کے کچھ اتحادیوں پر کام کررہے ہیں وہ جو بھی کریں لیکن اسد قیصر کو مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کی ایک ملاقات کرادینی چاہئے تاکہ دونوں میں ذاتی دشمنی کا تاثر زائل ہوجائے۔

Source: Hamid Mir & Jang Publications