زینب قتل کیس کا مجرم عمران اپنے انجام کو پہنچ گیا، کیا صرف عمران ہی مجرم تھا یا اسکے اصل مجرم اب بھی موجود ہیں؟ زینب قتل کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو کیوں چپ کروایا گیا؟ اصل حقائق کیا ہے؟ تفصیلات اس پوسٹ میں پڑھیں.
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد قتل کی جانے والی آٹھ سالہ زینب کے مقدمے کے مجرم عمران علی کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ مجرم عمران علی کو مختصر عدالتی کارروائی کے بعد چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
جیل کے حکام نے مجرم عمران علی کی لاش کو ان کے اہلخانہ کے حوالے کر دیا وہ آخری رسومات کے لیے اسے قصور لے گئے۔ جس موقع پر سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ تھی۔ زینب کے والد امین انصاری نے جیل کے باہر میڈیا سے مجرم کی پھانسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا انجام انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اسے تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اسے نصف گھنٹے تک وہاں لٹکائے رکھا گیا۔
یاد رہے کہ جب زینب کیساتھ ظلم ہوا تھا تو ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیا پر انکشاف کیا تھا کہ مجرم عمران کے پیچھے ایک پورا گروہ کام کر رہا ہے جو زینب کی طرح کی کتنی بچیوں کا ریپ اور پھر قتل کرتا ہے. جیسے ہی ڈاکٹر شاہد مسعود کی یہ بات میڈیا پر چلی تو ہر طرف تہلکہ مچ گیا. اصل مجرموں کو چھوڑ کر سب نے اپنی بندوقوں کا رخ ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف کردیا کہ یہ غلط بیانی سے کام لےرہے ہیں، پاکستان میں ایسا خطرناک کوئی گروہ نہیں ہے، ڈاکٹر شاہد مسعود کو بعض میڈیا اینکرز اور سیاستدانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو اس غلط بیانی پر سخت سزا دینی چاہیے.
ڈاکٹر شاہد مسعود نے یہ انکشاف کیا کہ ایک ڈیپ ڈارک ویب سائٹ ہے جس پر زینب جیسی ان گنت بچیوں کی ریپ ویڈیوز لائیو اس ویب پر لگایا جاتا ہے. ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس انکشاف پر ایک ہی رات میں جے آئی ٹی ٹیم تشکیل دے دی گئی. ان کے خلاف عدالتی کروائی کا آغاز کیا گیا اور ان کے پروگرام پر تین ماہ کی پابندی لگا دی گئی.
جے آئی ٹی کے سامنے جب ڈاکٹر شاہد مسعود پیش هوئے تو انہوں نے ڈارک ویب کی ویڈیوز کو جے آئی ٹی کے سامنے چلا ڈالا جو ایک خاص طریقے سے چلائی جاتی ہیں. جس پر پاکستان کی بہت سے بچوں کا ریپ لائیو دکھایا جارہا تھا. جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے جے آئی ٹی کو راستہ دکھایا اور اصل حقائق سے آگاہ کیا تو پتا چلا کہ پاکستان کے بڑے سیاستدان، بڑے بڑے وزیر، منسٹرز، فری میسن کے کارندی جو پاکستان میں موجود ہیں، اور بڑے بڑے چینلز کے مالکان، نامور صحافی اور اینکرز سب اس ناپاک کھیل میں شامل تھے. یہ سب اتنا خطرناک کھیل کھیل رہے تھے کہ ایک دم سے ساری کی ساری تحقیقاتی ٹیم سر پکڑ کے بیٹھ گئی!
لہٰذا اس نازک وقت پر ڈاکٹر شاہد مسعود کو قربانی دینا پڑی، انکو کہا گیا کہ آپ اپنے اوپر ذمہ داری لیں کہ اپنے غلط بیانی کی ہے. اس کے بعد سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود پر تین ماہ کی پابندی لگا دی. ڈاکٹر شاہد مسعود کا ملک پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ یہ اس وقت خاموش ہو گئے اور سب کچھ جانتے هوئے بھی سپریم کورٹ کا ساتھ دیا. لیکن چپ کے سے تحقیقاتی اداروں کو مجرموں تک پہنچنے کا ایک راستہ دکھا دیا.
اس وقت ڈاکٹر شاہد مسعود کے سنسنی خیز انکشافات پر اس لیے ایکشن نہیں لیا گیا اور اتنے بڑے ڈارک ویب کے نیٹ ورک کا راز اس لیے افشاں نہیں کیا گیا کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا تو ایک دم ہی پورے کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا کیونکہ اس گھناؤنے کھیل میں پاکستان کی اہم شخصیات اور ایسے ایسے لوگ شامل تھے کہ اگر انکے اوپر اسی وقت ہاتھ ڈالا جاتا تو اتنا نقصان ہو جاتا کہ سنبھلنا مشکل ہوجانا تھا اور پاکستان کا نام پوری دنیا میں رسوا ہوجاتا.
اب آہستہ آہستہ سارے حقائق سے پردہ اٹھایا جارہا ہے، جیسا کہ حال ہی میں میڈیا پر خبر آئی کہ ایف آئی اے نے بتایا ہے کہ فحش ویڈیوز بنانے والا ماسٹر مائنڈ بیرون ملک ہے. انٹرنیٹ پر پاکستانی بچوں کی فحش ویڈیوز ڈالی جارہی ہیں. پاکستان سے یہ کام چل رہا ہے مگر پاکستان کے پاس اس کو روکنے کا سسٹم نہیں ہے کیونکہ اس کا اصل گینگ باہر بیٹھا ہے، سارا کچھ باہر سے آپریٹ ہورہا ہے، اور یہ سب کچھ ڈارک ویب پر موجود ہے.
اب بتائیں ڈاکٹر شاہد مسعود نے تو بلکل صحیح انکشاف کیا تھا لیکن پھر انہوں نے اپنے پروگرامز پر تین ماہ کی پابندی کیوں قبول کی؟ ڈاکٹر شاہد اس وقت صرف اس لیے خاموش رہے کہ جب دو نقصان ہو رہے ہوں تو عقل مندی اسی میں ہے کہ چھوٹا نقصان قبول کیا جائے.
لہٰذا زینب قتل کیس میں عمران کی پھانسی تو بس شروعات ہے، عمران کی پھانسی میں ایک پیغام بھی ہے جو کہ ڈارک ویب والوں کے لیے اور ان سیاستدانوں کے لیے ہے جنکو آنے والے وقت میں پھانسی کے تختے پر ہر صورت لٹکنا ہوگا کیونکہ اب گروہ کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف کاروائی ہونے جارہی ہے.