چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جب میں جج بناتو میرے والد کے ایک دوست نے دوسرے سے کہا کہ اس دا پتر جج ہویاتو اس نے جواب دیا ہا ہویا تے اے سب پاکستان کے بدولت ہیں اور آج اگر یہ ملک نہ ہوتا تو میں کسی بینک کا ایک چھوٹا موٹا آفیسر ہوتا یہ کسی کورٹ کا ایک چھوٹا موٹا وکیل ہوتا اور یہ سب میرے ملک کی بدولت ہے جو آج میں جس جگہ پر ہوںاور ایک سوال کے جوب میں کہا کہ میں آج اس جگہ پر ہوں تو یہ سیٹ بہت اہم ہے اور اس کی ذمہ داری بھی اہم ہے لیکن ایک جج کا کام پورے رسوخ کے ساتھ ایک فیصلہ کرنا پورے انصاف کے ساتھ اور ایک جج کی چھٹیاں نہیں ہوتی اور میرے خیال میں سب سے زیادہ تنخوا اس قت جج کی ہوتی ہے جو تقریباپچاس پچپن ہزاریومیہ کے حساب سے ہے
اور یہاں میں ایک سول کرنے جارہا ہوں کہ کیا جو ہمیں پچپن یا پچاس ہزار یومیہ جو ملتا ہے تو کیا ہم اس کے حساب سے کام کرتے ہیںاور کیا ہم اس کے جتنے حساب سے اپنی ذمہ داری سنبھالتے ہیں میرے پاس ایک جج تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں یہ کام نہیں کر پائے تو اس نے کہا تھا کہ جی کام کا بہت رش تھااس وجہ سے نہیں کر پایا۔۔۔۔باقی تفصیلات ویڈیو میں ملاحظہ کریں ۔۔۔۔۔اور اگر آپ کو ہماری پوسٹ اچھی لگے تو کمینٹ میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنااوراس پوسٹ کو اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا مت بھولئے گا