وزیر اعلیٰ پنجاب کی دوڑ سے علیم خان باہر. تحریک انصاف کی قیادت نیا نام سامنے لے آئی


وزیر اعلیٰ پنجاب کون ہوگا، ناقابل یقین نام سامنے آگیا اور علیم خان کا نام وزیر اعلیٰ کی دوڑ سے باہر. گزشتہ چند روز سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنمبھالنے کے لیے بنی گالہ میں مشاورت ہورہی ہیں. پہلے تو یہ خبر آئی کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ علیم خان ہوگا. علیم خان خود بھی چاہتے ہیں کہ انھیں فلحال عارضی طور پر پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے اور جیسے ہی وہ نیب کے مقدمات سے فارغ ہو تو پھر انھیں مستقل پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے لیکن آج یہ پتا چلا ہے کہ علیم خان وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بن رہے کیونکہ عمران خان صرف یہی چاہتے ہیں کہ پنجاب کا چیف منسٹر ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو یعنی اس پر کوئی مالی کرپشن کا داغ نہ ہو اور وہ صرف پنجاب کے مفادات کے لیے کام کرے.

البتہ یاسمین راشد کے دامن پر بھی کوئی داغ نہیں ہے. پارٹی انکے نام پر بھی غور کر رہی ہے. کہ آیا وہ پنجاب کو کرپشن سے پاک کر سکے گی کہ نہیں. لیکن جو سب سے زیادہ مضبوط امیدوار ہے وہ ہیں سبطین خان کیونکہ سبطین خان واحد ایسے شخص ہیں جو پنجاب کے چیف منسٹر بننے کے ہر طرح سے قابل ہیں. یہ ہماری رائے بلکہ تحریک انصاف کے متعدد پارٹی ممبرز کا یہی کہنا ہے. اسکے علاوہ فواد چوہدری بھی اس عہدے کے اہل ہو سکتے ہیں. اب صرف مسلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا تعلق بھی میانوالی سے اور وزیر اعلیٰ کا بھی. یہ بات سب کو پریشان کر رہی ہے کہ یہ اچھی بات نہیں یانی اگر سبطین خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وزیر اعلیٰ بھی خان، وزیر اعظم بھی خان، اور دونوں کا تعلق بھی میانوالی سے.

اب رہی بات 90 دن کا ٹارگٹ پورا کرنے کی. تحریک انصاف کو جلد عہدے سنمبھال لینے چاہیئیں تاکہ عہدوں سے زیادہ ٹارگٹ پر توجہ ہو. شاہ محمود قریشی کو اسپیکر قومی اسمبلی بننے پر صرف اسی لیے راضی هوئے ہیں کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ یاسمین راشد کو بنایا جائے.

پی ٹی آئی کو علیم خان بھی بڑے باصلاحیت آدمی ملے ہیں. انکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے. میری نظر میں علیم خان پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کی ذمہ داری کو بہت احسن طریقے سے پوری کر سکتے ہیں. جیسے ہی مکانات کی تعمیر کا کام شروع ہوگا تو لوگوں کو روزگار بھی ملنا شروع ہوجائیگا. اب رہی بات ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی. تو یہ ٹارگٹ بھی کوئی آسان ٹارگٹ نہیں ہے. اس لیے میرے خیال میں تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو عہدوں سے زیادہ ٹارگٹ پر توجہ کرنی چاہیے.

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صدر مملکت کون بنے گا. جاوید ہاشمی اگر ن لیگ میں شمولیت نہ اختیار کرتے تو یقینا انکا نام سرفہرست ہوتا. جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کا بھی کسی زمانے میں پی ٹی آئی میں بہت احترام کیا جاتا تھا اگر انہوں نے بھی عمران خان کی لیڈر شپ کو ٹھکرایا نہ ہوتا تو وہ بھی صدر پاکستان ہو سکتے تھے ۔