گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔
ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی
گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔
ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔
لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔
کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔
کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ
سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔
موسم کی پیش گوئی دشوار
توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔
یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔
ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔
ایل نینو کا اثر
توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔
ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔
مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار
ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔
سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟
ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔
لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔
اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔
ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔
اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔
امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔
سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔
فطرت کی رفو گری
کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔
ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔
شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔
ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔