ناجائز تعلق کیسے بنتا ہے


ہم اس معاشرے کے باسی ہیں جہاں ہر فرد خود کو پاک صاف سمجھتا ہے اور اپنے گھر کومسجد و مندر کی طرح پاک و پوتر. جبکہ دیگر سوسائٹی اسے کسی طوائف کے کوٹھے کی طرح گھنگرو پہنے نظر آتی ہے.

ہمارے معاشرتی مسائل اس حد تک انوکھے ہیں کہ ہم انہیں مسائل ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں. ہم نے وہ صاف ستھری عینک لگا رکھی ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد کی گندگی نظر نہیں آپاتی . اور اس طرح بس ہم ٹھیک ہیں.بس ہم ہی ٹھیک ہیں. یہ ہم ہم اور ہم کی گردان کرتے ہوئے اتنے زیادہ ہم ہو جاتے ہیں کہ ہ اپنی ساخت بدلتے ہوئے ح ہو جاتی ہے اور ہم ہم سے سیدھا حمام بن جاتا ہے. اب چونکہ سب نے اچھا ہے کی عینک لگا رکھی ہے اس لئے اس حمام میں سب ننگے ہونے کے باوجود ہم سب اپنے اور ایک دوسرے کے ننگے پن کو دیکھ نہیں پاتے، یا دیکھنا نہیں چاہتے. کیونکہ ہمارے نزدیک ایسے مسائل کا ذکر کرنا بھی گناہ ہے پاپ ہے دھرم سنکٹ ہے. اور ہم اپنا دھرم کبھی بھرشٹ نہیں ہونے دیں گے. ترقی کرتی ہوئی دنیا اور اس میں آدھے تیتر آدھے بٹیر ہم خود مخمصے کا شکار ہیں کہ ہم تیتر ہیں یا بٹیر. اور اسی کنفیوژن میں ہم تیتر بٹیر سے سیدھا ہیر پھیر تک چلے جاتے ہیں. جس موضوع پر یہ تحریر لکھی جا رہی ہے اسے ’’زنا، ناجائز تعلقات، ناجائز بچے اور حمل گرانا ‘‘کہتے ہیں. ایسے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کا اعداد و شمار ممکن بنا لیا جائے تو ہم شرفاء حیرت سے غش کھا کر رضاکارانہ طور پر فوت ہو جائیں گے. یہ مانے بغیر کہ اس مسئلے کے کردار بھی ہم ہی ہیں یا ہم ہی میں سے ہیں. ناجائز تعلق بنتا کیسے ہے اور ایک لڑکی بنا شادی کے ہی حمل سے کیسے ہو جاتی ہے یا بن بیاہی ماں کیسے بن جاتی ہے اس مفروضے کو سمجھنے کیلئے ہمیں اس کے محرکات پر نظر ڈالنی پڑے گی. جوتلخ ہیں مگر سچ ہے. اس عمل کی شروعات ظاہر ہے سیکس کرنے سے ہوتی ہے. لیکن یہ سیکس ہوتا کیوں ہے ؟ ایسی کون سی ضرورت ہے جو شادی کے بغیر ہی یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے. ؟ اسے جسم کی بھوک کہتے ہیں. اور یہ کوئی غلط کام نہیں ہے یا کوئی گناہ نہیں ہے. یہ انسانی جبلت ہے. روٹی کپڑے اور مکان کے بعد سب سے بڑی ضرورت. بلکہ میری نظر میں روٹی کے بعد سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت اگر کوئی ہے تو وہ سیکس ہے. جس کو کرنے کا حق ہر مر د اور عورت کو برابر ہے. قانون قدرت ہے کہ جس چیز کو جتنا زیادہ چھپایا جاتا ہے یا جس خواہش کو جتنا زیادہ دبایا جاتا ہے وہ اتنی ہی شد مد سے اور زور و شور سے سر اٹھاتی ہے. ہماری معاشرتی گھٹن میں تو کچھ زیادہ ہی سر اٹھا چکی ہے. جس کی مثال آپکو ہر روز کسی نہ کسی خبر میں مل جاتی ہے. ہر کام کرنے کے کچھ جائز طریقے ہوتے ہیں جیسے کہ شادی اور کچھ چور راستے ہوتے ہیں جیسے کہ ناجائز تعلقات، زنا جو آجکل دوستی اور محبت کے نام پر کیا جاتا ہے. ہم نے جائز طریقوں کو اتنا زیادہ سخت اور کٹھن کر دیا ہے کہ ایک عام آدمی اس کے حصول کے لئے برسوں بھی لگا دے تو اسے حاصل نہیں کر پاتا. اور لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں. جس کا نتیجہ ظاہر ہے سرکشی کی صورت میں نکلتا ہے. ہمارا موضوع چونکہ زنا یا سیکس نہیں سیکس کی صورت میں حمل ہو جانا، حمل گرانا اور نہ گرا پانے کی صورت میں بچہ پیدا ہونا ہے. لہذا سیدھا مدعے پر آتے ہیں. مرد ایک پیدائشی شکاری ہے جسے ہر صورت میں شکار چاہیے. عورت کی بھی اپنی ضروریات ہیں. لیکن معاشرتی گھٹن اور جلد شادی نہ ہوپانے کی صورت میں بحرحال اسے بھی چور راستے اپنی طرف مائل کر تے ہیں لیکن. جب معلوم ہے کہ ہم جوعمل کرنے جا رہے ہیں وہ ناجائز ہے گناہ ہے پھر بھی حمل کیونکر اور کیسے ہو جاتاہے ؟ جب اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے بخوبی آگہی ہوتی ہے پھر بھی یہ غلطی کیونکر سرزد ہوتی ہے اس کو سمجھنا ہوگا. یہ تحریر بچوں کیلئے تو ہے نہیں اس لئے اس میں کھل کر بات ہوگی. ایمانداری کی بات ہے کہ ایک مردکو کنڈوم میں وہ راحت نہیں ملتی جو بنا کنڈوم کے حاصل ہونی چاہیے. اور مرد مصنوعی پن پسند نہیں کرتا . یہاں حالات اور معاشیات کا عمل شروع ہوتاہے. میرے مفروضے میں 3 مختلف قسم کے طبقات کا سیمپل لیا گیا ہے. اپر کلاس اپر کلاس میں حمل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کیونکہ دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور لڑکی کا جب دل کرے وہ سیکس کرنے میں آزاد ہوتی ہے بلکہ اس کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ وہ سیکس کرے، نہ کرے یا جس کے ساتھ چاہے کرے اور جس کے ساتھ چاہے نہ کرے. وہ اپنی مرضی اور شرائط پر سیکس پسند کرے گی اور کنڈوم یا مانع حمل ادویات موقع پر نہ ہونے کی صورت میں زیادہ تر وہ سیکس نہ کرنے کو ترجیع دے گی. اسے اپنے مستقبل کی کوئی خاص فکر نہیں ہوتی اس لئے وہ جذباتی بلیک میل ہونے سے بھی بچی رہتی ہے. 100 میں سے کسی ایک کیس میں حمل ہو جانے کی صورت میں بھی وہ اتنی آزاد اورمیچور ہوتی ہے کہ وہ یہ مسئلہ اپنی فیملی یا صرف ماں سے شئیر کر لیتی ہے یا کسی دوست کی مدد سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ لیتی ہے. جو ابتدائی صورتحال میں ابارشن کی صورت اختیار کرتا ہے لیکن اگر بچہ تین ماہ سے زیادہ کا ہو چکا ہو تب ابارشن کی صورت میں لڑکی کی جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے اس لئے وہ اس بچے کو پیدا کرے گی اور خاموشی سے کسی ایدھی کے جھولے میں ڈال دے گی. اور فیملی بھی تھوڑی بہت ناراض ہو کے بحرحال اسے معاف کر دے گی. اور اسکو ایک غلطی سمجھ کے بھلا دے گی. لیکن ایسی صورتحال بہت کم ہوتی ہے کیونکہ لڑکی پڑھی لکھی ہوتی ہے اسے تمام باتوں کا پتہ بھی ہوتا ہے اور وہ سیکس اپنے مزے کیلئے کرتی ہے کسی مجبوری میں نہیں.اس لئے وہ تمام حفاظتی تدابیر عمل میں ضرور لائے گی. یہاں تک کہ بعض لڑکیوں کے ایگز اتنے پاورفل ہوتے ہیں کہ وہ مانع حمل گولیاں کھانے کے باوجود بھی حمل کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کو اپنی صحت بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ کنڈوم ہی استعمال کریں گی یا کروائیں گی ورنہ انکار کر دیں گی. مڈل کلاس مڈل کلاس میں لڑکی اگرچہ روپے پیسے کی قلت کا شکار تو نہیں ہوتی لیکن بحرحال اسے خود سے زیادہ امیر اور کھاتے پیتے گھرانے کے مرد یا لڑکے اپنی طرف مائل کرتے ہیں. ایسی صورت میں وہ لڑکیاں اپنے سے کم حیثیت کے حامل لڑکے کے ساتھ تو اپنی مرضی کا محفوظ سیکس کر یں گی لیکن جب اپنی حیثیت سے زیادہ کے لڑکے کی بات ہوگی تو بحرحال ان کو لڑکے کے ناز نخرے اٹھانے پڑیں گے اور لڑکے کا من چاہا سیکس کرنا پڑے گا جس کا سیدھا سا مطلب ہے بنا کنڈوم یا مانع حمل ادویات کے سیکس. ایک طرف اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں تو دوسری طرف دوسرے کی بات ماننے پر بھی مجبور ہو ہی جاتی ہیں. چونکہ ایسے خاندان میں روک ٹوک بحرحال ہوتی ہے اور رات کو گھر سے باہر نکلنا بھی میعوب سمجھا جاتا ہے اس لئے اکثر اوقات سیکس آنا فانا جھٹ پٹ ہی کرنا ہوتا ہے. سکول ٹائم میں، کالج یا یونیورسٹی ٹائم میں اور ایسی صورت میں جب بے یقینی کی کیفیت ہوتی ہے تو کون اپنی جیب یا پرس میں کنڈوم یا مانع حمل ادویات لے کر گھومے گا. اس لئے بعض اوقات حمل ہو ہی جاتا ہے. 24 گھنٹو ں کے اندر اندر مانع حمل گولیاں کھا کر اس صورتحال سے بچا جا سکتا ہے لیکن چونکہ بعض لڑکیوں کا حمل قبول کرنے کا نظام زیادہ طاقتور ہوتا ہے لہذا وہ حمل رہ جانے کی صورت میں بھی دوسرے یا تیسرے ماہ حمل گرانا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے کیونکہ فیملی اور معاشرے کا پریشر ہوتا ہے. عزت داؤ پر لگی ہوتی ہے. ایسی صورت میں 50 فیصد تو اپنی ماں کو اعتماد میں لے لیتی ہیں اور 50 فیصد اپنی دوستوں کی مدد سے یا کسی لیڈی ڈاکٹر کی مدد سے حمل گرا دیتی ہیں. لیکن جب حمل تین چار ماہ سے زیادہ ہو چکا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں حمل گرانے کا مطلب ہے لڑکی کی جان داؤ پر لگانا. اس لئے یا تو آپریشن کر کے بچہ نکال لیا جاتا ہے یا پھر بچہ پیدا ہونے تک اس معاملے کو کسی طرح چھپایا جاتا ہے اور بہت ہی کم کیسیز میں بچہ جھولے تک پہنچتا وہ 9 ماہ پورے ہو جانے کے باوجود بھی بچہ کو کسی کچرے کے ڈبے میں پھینک کر ہی جان بچانا بہتر سمجھا جاتا ہے. کیونکہ بدنامی کی صورت میں کوئی ڈاکٹر انجئیر، یا مل اونر کا رشتہ تو ملنے والا نہیں. مڈل کلاس میں کزن فیکٹر بھی بہت رول ادا کرتا ہے جہاں چپکے سے ایک ہی گھر میں کسی بھی وقت کسی کزن کو مجبور کر کے یا پیار اور شادی کا لالچ دے کر بھی لڑکی کو جذباتی طور پر سیکس کرنے پر مجبور کر لیا جاتا ہے. لوئر کلاس کی لڑکی سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور ہوتی ہے. اگر کوئی اس کی عزت بھی لوٹ لے تو وہ بیچاری کسی کو بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی کیونکہ گھر، گلی ، محلے، گاوں شہر، اور برادری ہر جگہ عزت بچانی ہوتی ہے، رشتہ داروں کے طعنوں کا ڈر، برادری سے باہر رشتہ تو کرنا نہیں اس لئے کوئی شادی نہیں کرے گا ، یہ تمام ڈر لڑکی کو بالکل ایک بے جان لاش اور ایک بے جان کھلونا بننے پر مجبور کر دیتے ہیں. اور سیکس کی صورت میں کوئی بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے یا اس کی خواہش کرنے کی پوزیشن لڑکی کے پاس بہت کم ہوتی ہے. یہاں کزن فیکٹر بھی بہت زیادہ چلتا ہے. جذباتی بلیک میلنگ بھی ہوتی ہے اور شادی کا لالچ دے کر سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر بھی لڑکی کا استحصال کیا جاتا ہے. اور لڑکی اگر ملازمت پیشہ ہے تو اسے جگہ جگہ اپنی نوکری بچانے اور ترقی ملنے کی قیمت بھی جسم دیکر ادا کرنی پڑتی ہے. ایسی صورت میں لڑکی کے پاس حفاظتی تدابیر کی کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی اور سیکس بھی ہنگامی بنیادوں پر ہوتا ہے اس لئے حمل کے زیادہ تر واقعات لوئر کلاس میں ہوتے ہیں. لیکن اس کا سدبا ب فوری کر لیا جاتا ہے گولیاں کھا کر، پہلے مہینے میں ہی حمل گرا کر یا کم سے کم تیسرے مہینے تک کسی نہ کسی طرح بات چھپا کر اور آپریشن کروا کر. کیونکہ جیسے ہی حمل واضع ہوگا پھر لڑکی کے جینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اس لڑکی کو مار دیا جاتا ہے. عزت کے نام پر بھائی مار دے گا، باپ مار دے گا، چاچا تایا مار دے گا یا وہی کزن مار دے گا اپنا نام بچانے کیلئے جس نے اسے پیٹ سے کیا ہوتا ہے. بعض اوقات کزن فیکٹر ہونے کی صورت میں ان دونوں کی شادی کر کے اس عمل کو چھپا لیا جاتا ہے. لیکن زیادہ کیسز میں لڑکی کی جان تو جانی ہی ہے. قتل ہونے سے بچ بھی گئی تو لڑکی کو کبھی بچہ پیدا نہیں کرنے دیا جائے گا اور زبردستی بچہ گرانے کی صورت میں لڑکی کی موت واقع ہو جاتی ہے اور اگر بفرض محال و بچ بھی جائے تو ساری زندگی یا تو اپاہج بن کے گزرے گی، بانجھ بن کے گزارے گی یا پھر کسی گھر میں ملازمہ بن کر . بچہ پیدا ہونے اور جھولے تک پہنچانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. ان تینوں طبقات میں حمل کی تعداد ، ابارشن ، بچہ ہونے اور نہ ہونے کے اعداد و شمار سے کسی بھی طبقے کے برے ہونے کم برے ہونے یا شریف ہونے پر استدلال نہیں ہے بلکہ سیکس ہونے کی صورت میں لڑکی حمل روکنے میں کتنی آزاد ہوتی ہے اور سیکس کرنے ، نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں کتنی مضبوط ہوتی ہے دکھایا گیا ہے. یہ سب ہمارے ارد گرد ہر روز ہوتا ہے جسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے. یہ صدیوں سے ہے اور رہے گا. یہ انسانی جبلت ہے. جسے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے. لیکن رشتوں کو جائز نام دے کر اس کے اعداد و شمار کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے. جہیز کی طلب نہ کر کے لڑکیوں کو اس گناہ سے بچایا جا سکتا ہے. اور ڈاکٹر، انجینئیر اور بزنس مین لڑکا ہی چاہیے..! یہ شرط ختم کر کے بھی لڑکوں کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے. جب ہمیں اپنی بیٹی کیلئے کروڑ پتی رشتہ چاہیے اور بیٹے کیلئے لاکھوں میں ایک بہو تو پھر جلد شادی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مناسب رشتے بھی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں. لڑکیاں اور لڑکے گھر بیٹھے بوڑھے ہو تے رہتے ہیں اور جوانی کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں جو جائز طریقے سے نہ سہی ناجائز طریقے سے ہی سہی، پوری تو کرنی ہیں. اب بچے گھر بیٹھ کے ساری زندگی کیرم بورڈتو کھیلنے سے رہے. اور انسانی نفسیات ہے گناہ کے کام میں لذت جائز کام سے ہزار گنا زیادہ نظر آتی ہے اور محسوس ہوتی ہے. اگر ہمیں اپنے ارگرد کے گند کو ختم کرنا ہے تو پہلے اپنے ذہنوں کو تھوڑاکھلا کرنا ہوگا. نوجوان نسل کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا. جہیز اور چاند سی دلہن کیلئے دور بینیں اپنی آنکھوں سے ہٹانی ہونگی. ورنہ یہ سیاپا ہر گزرتے د ن کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا.