ہیرا منڈی بظاہر بدنام زمانہ علاقہ ہے کیونکہ وہاں جسم فروشی کا دھندا ہوتا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد بدنام علاقے میں جانے والے لوگوں میں سے 95 فیصد شریف لوگ ہیں۔شریف سے مراد کردار کے شریف نہیں بلکہ پیسے کے حساب سے شریف۔ آج کل شریف اس کو ہی مانا جاتا ہے جس کے پاس پیسا ہو اس لیے مال
دار لوگوں کو اشرافیہ کہا جاتا ہے۔یہ شریف لوگ ہیرا منڈی کی طوائفوں کے ساتھ زنا در زنا کرتے ہیں۔ان طوائفوں کے ہاں ان شریفوں کی اولادیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔لیکن یہ شریف لوگ ان بچوں کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا کچا چٹھا کھل جاتا ہے۔کسی زمانہ میں فرح سلطانہ کی والدہ زاہدہ سلطانہ جو ایک سنگر تھی،نے اس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے جا کے نتیجے میں فرح پیدا ہوئی لیکن اس وزیر اعظم نے فرح کو قبول نہیں کیا۔فلم سٹار انجمن نے بھی دعوی کیا تھا کہ میرا باپ سابق ریاست بہاولپور کے امیر الامرا میں شامل ہے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ ملتان کے بازارِ حسن سے ہی اداکارہ صائمہ فلم انڈسٹری میں آئی تھیں ۔ملتان کے بازار حسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں سے کئی فلمی ستارے ملک میں ابھرے ہیں۔صائمہ اپنے نام کے ساتھ خاکوانی لکھتی ہیں وہ بھی یہی کہتی ہیں کہ ان کا باپ ملتان کے معروف خاکوانی خاندان سے تھا۔ بازار حسن میں فنکاروں کی ایک انجمن کے صدر محمود احمد کا کہنا ہے کہ میرے علم میں ایسے واقعات بھی ہیں کہ کسی باپ نے اپنی بیٹی کا رقص دیکھا اور پھر اسے شب بستری کے لیے بھی لے گیا،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملتان کے ایک مشہور جاگیر دار اور پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلی میاں ممتاز کی بیوی الماس بھی بازار حسن سے تعلق رکھتی ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں کا تعلق اسی بازار حسن سے تھا۔اس موضوع کی تفصیلات کتا ب ”پارلیمینٹ سے بازار حسن تک” میں موجود ہیں۔