ہیرا منڈی سےبازار حسن تک


مغلوں کےزوال کےباوجود بادشاہوں کی طرف سےریڈ لائٹ ایریا ارو کورٹ ہریٹیج کوبہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ برطانوی گورےایسی جگہوں میں بہت دلچسپی رکھتےتھےاور ڈانس، میوزک اور دوسری تفریحات سےلطف اندوز ہوتےتھے۔ پچھلےکئی سال میں ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ پر شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ ای او ایس نےچار ایسےکنٹونمنٹ کےبارےمیں لکھا ہےجو مغلیہ دور میں بہت شان و شوکت سےچلائےجا رہےتھےاور اب وہ اپنےخاتمےکےقریب ہیں۔

لاہور کی ہیرا منڈی اپنےرنگ کھو چکی ہے۔ شاری جلیل

جگنو(فرضی نام) نےاپنی مایوسی کا اظہار کرتےہوئےکہا: مجھےآج بھی وہ دن یاد ہےجب میں پہلی بار وہاں موجود تھی۔ اس کا چہرہ زرد تھا اور وہ اپنےچھوٹےسےکمرےمیں ایک سفید ٹیوب لائٹ کی روشنی میں موجود تھے؟ میں اس وقت صرف 13 سال کی تھی لیکن مجھے9 سال کی بچی کےکپڑےپہنائےگئےتھے۔ میں نےجیولری پہنی اور میک اپ کر رکھا تھا ۔ اگرچہ مجھےسب نےکہا میں خوبصورت لگ رہی ہوں لیکن میں بہت شرم محسوس کر رہی تھی کیونکہ میری ڈانس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جگنو کی پھوپھی جو جگنو کی طرح ایک ڈانسر تھی لیکن تب ریٹائر منٹ لےچکی تھی، نےاپنی بھتیجی سےکچھ بات چیت کر کےاسےحوصلہ دیا۔

انہوں نےکہا: یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہےاور ہماری خواتین یہ کام عرصہ سےکر رہی ہیں۔ مجھےاس پر شرم محسوس کرنےکی کیا ضرورت ہے؟ جب وہ بولیں تو میرےاندر کچھ پگلنےلگا۔ تھوڑی دیر بعد میں کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔ انہوں نےوہ دن یاد کیےجب وہ پہلی بار اس کمرےمیں داخل ہوئیں جسےٹائم کمرہ یا آفس کہا جاتا تھا۔ دو یا تین تماش بین وہاں بیٹھےتھےجب کہ ان کا وفد جس میں موسیقار اور ان کی پھوپھی شامل تھےجگنو کےساتھ تھے۔ یہ ایک پرائیویٹ چھوٹی سی بیٹھک تھی اور جب جگنو نےڈانس شروع کیا تو اس کےسارےخوف غائب ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں ہےکہ انہوں نےکونسےگانےپر ڈانس کیا تھا ۔ لیکن ان کویہ یاد ہےکہ یہ کوئی میڈم نور جہاں کا گانا تھا۔ شاہی محلہ کی تمام ڈانس کرنےوالی لڑکیوں کی طرح خاص طور پر ہیرا منڈی میں ایک رسم ہےجس میں ڈانس کرنےوالیوں پر پیسےنچھاور کیےجاتےہیں۔ ان دنوں نئی رقاصہ کےلیےریٹ 400 سے500 کےقریب تھا۔ لیکن جگنو نےاتنی اچھی پرفارمنس دکھائی کہ انہیں پہلےدن ہی 2500 روپےملے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کو25000 روپےملے۔ یہ ساری رقم تمام رقاصاوں میں برابر بانٹی جاتی تھی۔

جگنو آج بھی بہت پسند کی جاتی ہیں لیکن اب وہ موٹی ہو چکی ہیں اور ان کےدو بچےبھی پیدا ہوئےہیں جن کےدو مختلف باپ ہیں۔ یہی چیز ڈانس کرنےوالی لڑکیوں کےزوال کا باعث ہے۔ یہ سوچنا ممکن ہےکہ یہ خاتون ڈانس کےذریعےایک بہتر مستقبل بنا سکتی تھی۔ ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ پر سرکاری پابندی لگانےکےبعد ان کا خاندان دوسرےکئی لوگوں کی طرح ایک دوسرےمحلےمیں منتقل ہو گئی۔ اس ایریا کوباغ منشی لدا کےنام سےیاد رکھا جاتا ہے۔ اس علاقےکوابھی بھی ہیرا منڈی کےنام سےیاد کیا جاتا ہےاگرچہ نئےہیرا منڈی میں ماضی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ اس علاقےکوباغ قرار دیا مبالغہ آرائی ہے۔ جگنو کا اپنا گھر ایسا ہےجس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے۔ اس گھر میں چار بچےاور تین بڑےاشخاص رہتےہیں اور یہ گھر بہت بری حالت میں ہے۔ اس کا کمرہ بہت تنگ ہےاور اس میں صرف ایک پیڈسٹل فین، ایک میٹرس اور تکیہ، ایک لیمپ شامل ہےاور یہ کمرہ صرف کنکریٹ سےبنا ہےاور اس پر کوئی رنگ روغن نہیں لگایا گیا ہے۔

جگنو کی ماں ذیبا جس کا تعلق گجرات سےہےاور اس کی شادی ایک ایسےشخص سےہوئی جس کوصرف ان کےوالد جانتےتھے۔ شادی کےبعد اسےمعلوم ہوا کہ اس کےسسرال والوں کا پیشہ ملک میں بدنام ہے۔ لیکن 47 سالہ ذیبا کا کہنا ہےکہ کنجر خاندانوں میں بہووں کوناچ گانےپر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس لیےان کی دوسری دو بیٹیوں کوناچ گانےکی تربیت دی گئی لیکن وہ دونوں وفات پا گئیں۔ اب صرف جگنو زندہ بچی ہے۔ ہیرا منڈی میں دو طرح کےلوگ اکثریت میں ہیں۔ ایک کنجر طبقہ ہے۔ اس طبقہ کی عورتیں ناچ گانےسےجڑی ہوئی ہیں۔ دوسرا طبقہ میراثیوں کا ہے۔ یہ کنجر طبقہ کی عورتوں کوموسیقی اور ناچنےکی تربیت دیتےہیں۔ چاہےکنجر طبقہ کی خواتین جسم فروشی نہ بھی کریں تو بھی انہیں طوائف قرار دیا جاتا ہے۔

زیبا نےگفتگو کرتےہوئےبتایا: ایک لڑکی کی پیدائش پر یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ جب لڑکا پیدا ہوتا ہےتو لوگ غم میں ڈوب جاتےہیں۔ آج بھی گھر کی روزی روٹی جگنو کماتی ہیں۔ وہ اپنےبچوں اور بہنوں کا خرچہ اٹھا رہی ہے۔ اس کا بھائی صرف روزانہ اجرت پر زندگی گزار رہا ہے۔ تمام کنجر عورتوں کی طرح جگنو کی شادی بھی نکاح نامہ کےبغیر ہوئی۔ انہوں نےتین چار مردوں سےشادی کی ان سےوہ تجارتی معاہدےمیں رہی ہیں۔ یہ شادی صرف ایک رات کےلیےہوتی ہےاور اس پر انہیں بہت زیادہ رقم ملتی ہے۔

جگنو کہتی ہیں: پہلی بار میرےوالد نےگولڈ بزنس مین کےساتھ شادی کروائی تھی اور اس نے30000 روپےدیےتھے۔ ہمارےنوکروں کوبھی 5000 فی کس دیا گیا تھا۔میں تب 13 سال کی تھی اور میں بہت گھبرائی ہوئی تھی لیکن میں نےبہت جلد اس پر قابو پا لیا۔ باقی مردوں کی طرح یہ تاجر بھی کبھی واپس نہیں آیا۔ اس وقت ایک مرد کےلیےایک کوٹھےوالی خاتون کےاتنےقریب آنا ایک آسان کام نہیں تھا۔ ہمارےاردگرد طبلہ والے، شیشہ والے، ڈھول والےاور نائیکا موجود تھے۔ ساتھ ہی پھول والا اور بولی لگانےوالا شخص بھی موجود ہوتا تھا۔ ایک رسم کےتحت پہلےایک خاتون کےساتھ واقفیت بنائی جاتی اور پھر اس کےقریب آیا جاتا ہے۔ ایک مرد کےلیےیہ اجازت نہیں تھی کہ وہ فوری طور پر عورت سےملےاور اس پر جنسی حملےکرےدے۔ ہماری کمیونٹی ہماری حفاظت کیا کرتی تھی۔

شاہانہ ڈیل

آج بھی ہیرا منڈی اتنی ہی دلچسپ جگہ ہےجتنی پہلےہوا کرتی تھی۔ بہت سےلوگ یقین رکھتےہیں کہ آج بھی وہ ہیرا منڈی میں مجرا اور لڑکیوں کا ڈانس دیکھ سکتےہیں۔ یہ بہت اچھا اور خوشگوار تجربہ سمجھا جاتا ہےجس میں غیر قانونی طریقےسےخفیہ رہتےہوئےاپنی خواہشات کا سامان کیا جاتا ہے۔ لیکن آج شاندار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کےسامنےکا یہ بازار تقریبا خاتمہ کےقریب ہے۔

اب اس بازار میں جوتوں کی دکانیں اور دوسرےمینوفیکچرنگ کےسیٹ اپ زیادہ پائےجاتےہیں۔ ساری عمارات جو پہلےقحبہ خانہ کےطور پر استعمال ہوتی تھیں اب خالی اور بےرنگ ڈھانچےکی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ٹائم کمرہ بھی اب چمڑےاور بور کےڈھیر کا گھر بنا پڑا ہے۔ میاں یوسف صلاح الدین جنہیں یوسف سلی کےنام سےجانا جاتا ہےکا کہنا ہےکہ لوکل کلچر اور میوزک تمام تہذیبوں کےلیےاہم ہوتا ہےلیکن جس طرح ہمارےکلچر کا خون کیا گیا وہ بہت ہی افسوسناک واقعہ تھا۔ سلی ٹیکسالی گیٹ کےعلاقےکےمرکز کےرہائشی ہیں۔

ان کی آبائی حویلی بارود خانہ اصل میں سکھوں نےاپنےپنجاب میں اقتدار کےدوران تعمیر کی تھی اور یہا ں گن پاوڈر، ہتھیار اور دوسرےاہم آلات رکھےجاتےتھےجیسا کہ عمارت کےنام سےظاہر ہے۔ لیکن لاہور کےپہلےمسلم مئیر میاں امیر الدین نےجب 1870 میں یہ عمارت خریدی تب سےیہ رہائشی عمارت کےطور پر استعمال کی گئی ہےاور نسل در نسل ایسےہی منتقل ہوتی رہی ہے۔ اگر سلی کےدادا مئیر تھےتو ان کےنانا ایک بہت بڑےشاعر سر محمد اقبال تھے۔ وقت کےساتھ ساتھ سلی آرٹ اور کلچر کےغیر سرکاری پیٹرن کےطور پر مشہور ہو گئے۔ سلی کا ماننا ہےکہ آج کےدور میں اچھےموسیقار ڈھونڈنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔

وہ ایسےموسیقاروں کی بات کرتےہیں جو اس علاقےسےنکلےجن میں استاد طافو شامل ہیں جن کی ساری فیملی آج بھی بھاٹی گیٹ میں رہائش پذیر ہے۔ یہ علاقہ موسیقاروں اور میوزک کی شاپس کی وجہ سےبہت شہرت کا حامل ہے۔استاد برکت علی خان، فتح علی خان اور امانت علی خان بھی اسی علاقےسےتعلق رکھتےتھے۔ اس کےعلاوہ کچھ گانےوالی خواتین جن میں فریدہ خانم اور نور جہان بھی شامل تھیں جنہوں نےاستاد سےتربیت حاصل کی۔ پرانےزمانےمیں قحبہ خانےپر گانےکا ایک مشہور سٹائل غزل گائیکی تھا۔ یہ زیادہ تجرباتی اور لچکدار سٹائل تھا جو ٹھمری سےایک قدم آگےتھا۔ اگر آپ وہ گھنگرو ڈانس دیکھنا اور غزل سننا چاہیں تو آپ کوکہیں نہیں ملےگا۔


دارا انجم جو ایک مؤرخ اور لاہور قلعہ کےڈائریکٹر ہیں کا کہنا تھا: جب ضیا نےان سب چیزوں پر پابندی لگائی تو علاقہ میں ایک معاشی قحط پیدا ہو گیا۔ مکان مالک جو کنجروں سے5000 ماہانہ کرایہ لیتےتھےکووقت پر پیسےنہیں ملتےتھےکیونکہ کنجر کمیونٹی کا معاشی سلسلہ بہت آہستہ اور کمزور ہو گیا تھا۔ جب جوتےبنانےوالےتاجروں نےزیادہ کرایہ کی پیش کش کی تو مالک مکانوں کواپنےکرایہ داروں کوزبردستی رخصت کرنا پڑا۔ ایک تیسری اور سب سےمشکل آپشن بھی موجود تھی۔ یہ چیز سستےداموں جسم فروشی تھی۔ لیکن چونکہ کنجر خاندان کی لڑکیاں فنکاری جانتی تھیں اس لیےانہیں فلم انڈسٹری کا رخ کرنا پڑا۔ باقی لوگ مشہور سنگر بن گئے۔ جو زیادہ مہارت اور ٹیلٹ نہیں رکھتےتھےانہیں علاقہ چھوڑ کر جانا پڑا۔ جگنو سمیت کچھ لوگوں نےمڈل ایسٹ میں ڈانسر کی حیثیت سےبھی قسمت آزمائی کی۔

اگرچہ زیادہ تر لوگ یہ یقین رکھتےہیں کہ شاہی محلہ میں پراسٹیٹیوشن پر کریک ڈاون کا سلسلہ ضیا دور میں ہوا لیکن فوزیہ سعید نےاپنی ایک کتاب (ریڈ لائٹ ایریا کا خفیہ کلچر) میں لکھا ہےکہ ایوب خان نےاس علاقےکےمکینوں پر پابندیوں ا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعد میں صرف موسیقاروں اور ڈانس کرنےوالوں کوایک محدود مدت کےلیےاپنا کام جاری رکھنےکی اجازت دی گئی۔قحبہ خانوں کےسب سےبڑےمرکز تبی گلی میں چونکہ کوئی پرفارمنس دیکھنےکونہیں ملتی تھی اس لیےیہ کبھی دوبارہ پراسٹیٹیوشن کےلیےنہیں کھل پائی۔ فوزیہ سعید اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ اس کےبعد سےہر حکومت نےیہی پالیسی اپنائےرکھی لیکن ضیا الحق کےدور میں سختی سےپابندیوں کا نفاذ شروع ہوا۔ سلی کےمطابق ہیرا منڈی پہنچنےسےقبل بازار حسن کئی بار منتقل ہوا۔

اس سےقبل یہ بازار حسن پرانی انار کلی اور چونا منڈی میں موجود تھا۔ اصل حقیقت یہ ہےکہ ان دنوں ریڈیو اور ٹی وی نہیں تھا اس لیےبراہ راست موسیقی ہی عوام کا واحد طریقہ تفریح تھا۔ ان دنوں موسیقاروں کواس قدر عزت دی جاتی کہ انہیں ان کےآبائی علاقےکےنام کےساتھ پکارا جاتا تھا۔ اختری بائی فیض آبادی جنہیں بعد میں بیگم اختر کا نام دیا گیا سےلےکر خورشید بائی ہجرووالی جو علامہ اقبال کی پسندیدہ موسیقار تھیں اور اکثر شکوہ اور جواب شکوہ گایا کرتی تھیں نےعلاقےکےتمام لوگوں کےدلوں میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ لیکن اگرچہ کلچرل مرکز ہیرا منڈی تھا لیکن سلی کووہ دن یاد ہیں جب جنرل ضیا کےدور میں شام کوبیٹھک کےپردےگرا دیےجاتےتھے۔


1988 کےضمنی الیکشن میں جب ن لیگ طاقت میں آئی تو قحبہ خانوں پر کام کرنےوالےبہت سےلوگوں کوراتوں رات گرفتار کر لیا گیا۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ میں اس وقت ایم پی اےتھا اور جہانگیر بدر ایم این اےتھے۔ اگرچہ ہمارا علاقہ داتا دربار تھا لیکن ہم دونوں نےپولیس کواور متعلقہ محکمہ کودرخواست کی کہ ان غریب لوگوں کورہا کر دیا جائے۔ کیا حکومت اپنا مقصد حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئی؟ یہ لوگ ہیر منڈی میں پراسٹیٹیوشن کےخاتمےکی بات کر رہےہیں اور میں سیکس ورک کوسپورٹ نہیں کرتا لیکن آج گلبرگ اور ڈیفنس کا آدھےسےزیادہ حصہ ہیرا منڈی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سلی نےبتایا۔

معیشت کی موت

50 سالہ طبلہ نواز توقیر حسین کا تعلق ہیرا منڈی کی میراثی کمیونٹی سےہے۔ اس نے13 سال کی عمر میں طبلہ بجانا شروع کیا ۔ اپنےپرانےدنوں کی یاد تازہ کرتےہوئےوہ کھلکھلا کر ہنسےاور بولے۔ اللہ کا شکر ہےکہ میرےوالد نےمجھےکچھ مختلف سیکھنےکا کہا۔ آج کل میں موسیقی کےآلات کی مرمت کا کام کرتا ہوں۔ حسین کی تبی مارکیٹ کےسامنےایک چھوٹی سی دکان ہےاور ان کا بیٹا بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ ان کا بیٹا اس کام کےعلاوہ پڑھائی بھی کرتا ہےاورڈی جےبزنس کووسعت دینےمیں مصروف ہے۔ لیکن حسین کےلیےان کی زندگی ایسےماحول میں طبلہ بجانےکا نام ہےجہاں انہیں حوصلہ افزائی ملے۔ ہر ڈانسنگ سیشن میں قریب 200 لوگ موجود ہوتےتھے۔ ان میں فلاور بوائے، منی سیلر، موسیقار اور ڈانسر شامل تھے۔

ہیرا منڈی سےتعلق رکھنےوالےتمام آرٹسٹ اور موسیقار ریڈ لائٹ ایریا پر آنےوالی موت پر ماتم کناں ہیں۔ جہاں پہلےسےتربیت یافتہ لوگوں کوکوئی نہ کوئی موقع مل جاتا تھا وہیں کچھ نئےموسیقار اور ڈانسر بھی ابھر کر سامنےآ رہےہیں۔ پرانےلوگ ان نئےابھرتےچہروں کوالزام دیتےہیں کہ انہوں نےآرٹ کی قیمت گھٹا دی ہے۔ مثال کےطور پر جگنو جب نئی خواتین ڈانسر کےبارےمیں بات کرتی ہیں تو ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں : ہمیں بڑےبڑےموسیقاروں نےتربیت دی تھی اور ہم نےان کی ہر سر اور تال کوسٹڈی کیا تھا۔ ہم ان سروں کےمطابق حرکت کرتےتھے۔ ہم اپنےقدموں سےپیسےکماتےتھے۔ آج کی یہ دو نمبری ڈانسر لڑکیاں فحش ڈانس کر کےپیسےکماتی ہیں۔

وہ کس طرح کےایونٹ میں حصہ لیتی تھیں؟

جگنو کا کہنا ہےکہ پرائیویٹ تقریبات میں سب سےزیادہ مشکل پیش آتی تھی ۔ زیادہ تر مرد ہمیں طوائف اور فاحشہ سمجھتےتھے۔

ایک دور کا خاتمہ

اکثر سننےمیں آتا ہےکہ لال بتی والےعلاقوں میں بسنےوالی خواتین اپنی جنسیت اور آرٹ کی صلاحیتوں کی خود مالک ہوتی ہیں۔ لیکن آج کےدور میں کم صلاحیت کی خواتین اور ڈانسر کی اہمیت زیادہ ہےاور وہ اس کوبدل نہیں سکتیں۔ آج کےمرد جو ہماری مارکیٹ ہیں آرٹ میں شغف نہیں رکھتے۔ وہ پرانےرسم و رواج کےمطابق عورتوں کوعظیم الشان سٹائل میں رقص کرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ آج کےمرد صرف فحش حرکات دیکھنےکےخواہش مند ہیں اور یہی وہ چیز ہےجس نےہیرا منڈی کوتباہ کر دیا ہے۔ ہمارےجو کلائنٹ تھےوہ یہاں ہمارےساتھ وقت گزارنےاور آرٹ سےلطف اندوز ہونےآتےتھے۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ مارکیٹ خود ہی بدل چکی ہے۔


اب کوئی ان عورتوں کی کمپنی کی خواہش نہیں رکھتا۔ اعلی کلچر اس علاقےسےجا چکا ہےاور اس کی جگہ جنسی اور فحش حرکات اور سروسز نےلےلی ہے۔ اسی وجہ سےتبی گلی کا اندھیر نگری کا علاقہ 15 سال سے60 سال کی عمر کی لڑکیوں اور خواتین سےبھرا پڑا ہےاور یہ بغیر دانتوں والی اور چہرےپر جھریوں والی عورتیں ہر آنےجانےپر جھپٹ پڑتی ہیں۔ وہ اپنےرزق کی تلاش میں اتنی مشکل صورتحال میں ہیں کہ ان میں سےبعض صرف 100 روپےکےلیےجسم فروشی پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ کچھ خواتین تو حد سےبھی بڑھ جاتی ہیں اور صرف 5 روپےمیں بھی اپنےآپ کوپیش کر دیتی ہیں۔ جسم فروشی کا یہ کام ایک پردےکےپیچھےکم روشنی میں تکمیل پاتا ہےتا کہ خاتون کی عمر کا اندازہ نہ کیا جا سکے۔ زیبا نےصورتحال کا خلاصہ کرتےہوئےکہا: ہیروں کا بازار آج موچیوں کا بازار بن گیا ہے۔

پشاور کےپردوں کےپیچھےکی ایک جھلک

سعدیہ قاسم شاہ

اس وقت دن چڑھ چکا ہے۔ ایک اوسط عمر کی لڑکی نرگس اپنےکام کےلیےتیار ہو رہی ہےاور اپنےبالوں کوکنگھی کرنےمیں مصروف ہے۔ اس کا ورک سٹیشن زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ پشاور کےحیات آباد ٹاون شپ میں ایک 7 مرلہ گھر میں اپر سٹوری پر کام کرتی ہیں۔ ان کےخاندان کےافراد جن میں 2 چھوٹی بہنیں شامل ہیں کواوپر آنےکی اجازت نہیں ہے۔ ان کےکسی بھی کسٹمر یا ورکر کودو منزلہ مکان کی نچلی منزل کےاندر جانےکی اجازت نہیں ہے۔ اس سب کا تعلق ان کےکام کرنےکےطریقےسےہے۔ ان کےکسٹمر اپنی پرائیوسی کا خیال رکھتےہیں اور ان کےورکرز بھی عام ورکر نہیں ہیں۔ یہ سیکس ورکر ہیں۔ اس گھر کےخاموش ماحول کودیکھ کر بلکل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ ایک قحبہ خانہ ہے۔


کسٹمرز چپکےسےدن کےوقت اندر آتےہیں، اپنی پسند کی لڑکی کا انتخاب کرتےہیں اور 3 سے10 ہزار روپےکےبیچ کی رقم ادا کر کےاپنی جنسی خواہشات پوری کرکےاپنےراستےپر نکل پڑتےہیں۔ نرگس اسی مکان میں رہتی ہیں اور کام بھی کرتی ہیں اور اپنےاصولوں پر سختی سےکاربند رہتی ہیں۔ جو لڑکیاں دن کےوقت کام کر کےکچھ پیسےکمانےکی خواہش رکھتی ہیں وہ نرگس کےگھر کا رخ کرتی ہیں۔ کسٹمرز جلدی سےاپنا کام نپٹا لیتےہیں اور زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ رات کےوقت گاہکوں کی تعداد میں خاص طور پر ویک اینڈ پر اضافہ دیکھنےکوملتا ہے۔ لیکن یہاں کا ماحول سیکس ورکرز کےخلاف نفرت سےبھر پور ہے۔

کمرشل سیکس ورک پورےشہر میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آج کےدور میں پشاور میں کوئی بھی ریڈ لائٹ ایریا نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کےایک بازار کا قصہ تحریک پشاور نامی کتاب میں شامل ہےجو مشہور مؤرخ منشی گوپال داس نے1869 میں تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں ایک چھوٹےبازار یا سٹریٹ کا ذکر کیا گیا ہےجسےٹھٹھی بازار کےنام سےجانا جاتا تھا اور قصہ خوانی بازار کےعقب میں واقع تھا۔ منشی گوپال داس اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں: یہ ہےبازار جسےٹھٹھی بازار کےنام سےپکارا جاتا ہے۔ یہاں موسیقار، ڈانس کرنےوالی لڑکیاں اور سیکس ورکرز رہتےہیں۔ تقسیم ہند کےبعد ٹھٹھی بازار کواسلام آباد بازاور کا نام دیا گیا لیکن آج اس کا کوئی بھی تاریخی پہلو باقی نہیں رہا اور یہاں صرف چترالی ٹوپیاں بیچنےوالےپائےجاتےہیں ۔

وہ دن گئےجب پشاور کی مین صدر مارکیٹ کوایک آنٹی کےنام سےجانا جاتا تھا جو سیکس ورکر تھیں اور ایلیٹ طبقہ کےلوگ ان کےہاں آ کر اپنی خواہشات کا سامان کرتےتھے۔ وہاں پھولوں کی کچھ دکانیں واحد علامت ہیں جن سےلوگ ریڈ لائٹ ایریا میں جانےسےپہلےپھول خریدا کرتےتھے۔ یہ بزنس غیر قانونی ہونےکےباوجود شہر کےمختلف حصوں میں پھیل چکا ہے۔ یہاں تک کہ 40 سال کی عمر کی خواتین بھی دن رات پشاور کی سڑکوں پر گھومتی ہوئی اپنےلیےگاہکوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ایک عام آدمی کےلیےیہ سوچنا بھی محال ہےکہ ایک اوسط عمر کی خاتون برقعہ پہنےہوئےنظر آئےلیکن حقیقت میں وہ ایک سیکس ورکر ہو۔

لیکن سچائی یہ ہےکہ اس عمر کی خواتین کم آمدنی والےمردوں کواپنا گاہک بناتی ہیں جن میں مالی، ڈرائیور اور واچ مین بھی شامل ہیں۔ ایسی عورتوں میں سےایک ایسی بھی ہےجسےتندود کےنام سےجانا جاتا ہے۔ ان سیکس ورکرز کےایک گاہک نےنام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ گاہک ان سیکس ورکرز کو500 سے3000 روپےادا کرتےہیں۔ عمر رسیدہ اور غیر تعلیم یافتہ عورتیں گلیوں میں آنےپر مجبور ہیں لیکن تعلیم یافتہ اور نوجوان لڑکیوں کورات کےوقت ہونےوالی پارٹیوں اور تقریبات میں ملازمت مل جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں عام سیکس ورکرز سےزیادہ پیسےلیتی ہیں۔ لیکن کسٹمرز کی بھی اس دنیا کےقدیم ترین پیشہ سےتعلق رکھنےوالی خواتین سےکچھ شکایات ہیں۔


ان کا کہنا ہےکہ زیادہ تر مواقع پر یہ خواتین انسان کومکمل طور پر لوٹ لیتی ہیں۔ندیم جو اکثر سیکس ورکرز کےپاس جاتےرہتےہیں کہ کئی بار ایک سیکس ورکر کوایک پارٹی یا شام کےلیے20 سے40 ہزار روپےکےعوض ہائر کیا جاتا ہےوہ بھی پروفیشنلزم کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ انہوں نےمزید بتایا کہ یہ کواتین شام کولیٹ آتی ہیں۔ ہر وقت فون پر باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اپنےدوستوں سےبات کرنےکی بجائےانہیں چاہیےکہ اپنےکلائنٹ کی طرف توجہ دیں۔ لیکن وہ اپنےگاہک کووقت دینےکی بجائےآپ سےوقت لیتی ہیں۔ لیکن وہ کیا چیز ہےجو ان خواتین کوسیکس ورکر بننےپر مجبور کرتی ہے؟

اگر کسی خاتون پر بہت زیادہ قرضہ ہو، رزق کمانےمیں مشکل ہو یا گھر کےکمائی کےذمہ دار افراد میں سےکسی کی موت واقع ہو جائےتو ایسی خواتین قحبہ خانوں کی آنٹیوں کےلیےآسان شکار بن جاتی ہیں۔ یہ آنٹیاں ماؤں کومشورہ دیتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کوکام پر بھیجیں اور اس کا کسی کومعلوم بھی نہیں پڑےگا۔ بعض سست اور نکمےخاوند اپنی بیویوں کوزبردستی اس دھندےمیں دھکیل دیتےہیں۔ چونکہ ان کےپاس کہیں اور جانےکا راستہ نہیں ہوتا کیونک وہ اپنےخاوند اور بچوں میں گھری ہوتی ہیں اس لیےوہ اس پیشہ کوہی اپنا لیتی ہیں۔ اس پیشہ میں مشکلات ہوتی ہیں لیکن اس پیشہ کےغیر قانونی اور غیر معروف ہونےکےباوجود یہ عورتیں اس پیشےسےباہر نہیں نکل پاتیں۔ کچھ خوش قسمت خواتین کوکوئی امیر آدمی مل جاتا ہےجو انہیں ماہانہ رقم پر اپنےساتھ مخصوص کر لیتا ہے۔

2 بچوں کی ماں ہینا کےخاوند کا تجارت میں بڑا نقصان ان کےاس پیشےسےمنسلک ہونےکا باعث بن گیا۔ اگرچہ وہ تعلیم یافتہ ہےلیکن پھر بھی اس نےاپنی ڈانس کی قابلیت کےذریعےپیسہ کمانےکوترجیح دی۔ کچھ عرصہ قبل ان کی قسمت جاگ گئی اور انہیں ایک امیر گاہک مل گیا جس نےانہیں ماہانہ اخراجات کےعوض اپنےلیےمخصوص کر لیا۔ انہوں نےیہ نہیں بتایا کہ یہ امیر زادہ ان کوکتنےپیسےادا کرتا ہےلیکن اب انہیں یہ خوشی ہےکہ انہیں ہر رات یہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ خواتین جو اپنی محبت میں ناکام ہو جاتی ہیں وہ سیکس کواپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔

ارم (فرضی نام)نامی لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ ایک لڑکےسےمحبت کرتی تھیں لیکن انہیں اس لڑکےنےاستعمال کر کےچھوڑ دیا۔ ا س کےبعد آنٹی نرگس نےانہیں سیکس کواپنا پیشہ بنانےپر آمادہ کر لیا۔ ارم ایک طالبہ ہیں اور اب بھی اپنی تعلیم مکمل کرنےاور نوکری حاصل کرنےکا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کےوالدین جو دور ایک گاوں میں رہتےہیں کوبلکل نہیں معلوم کہ ان کی بیٹی کس شعبہ سےمنسلک ہو چکی ہے۔ ارم جیسی سیکس ورکز شہر کےکسی دلال کےساتھ رہتی ہیں اور کچھ رقم اپنےدلال کوادا کرتی ہیں یا دلال انہیں کچھ تنخواہ پر اپنےساتھ رکھتےہیں۔ 20 سالہ مریم جو ایک سال سےآنٹی کےساتھ رہتی ہیں اور سیکس ورکر ہیں کا کہنا ہے: میں اپنی ماں کویہ کہتی ہوں کہ میں بیوٹی پارلر پر کام کرتی ہوں لیکن ماں کومعلوم ہےمیں کیا کرتی ہوں۔

مریم تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن ان کی خواہش ہےکہ وہ دبئی جا کر ایک کلب میں ڈانسر بن سکیں۔ بات کرتےوقت بھی ان کےچہرےپر مایوسی عیاں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ منشیات کا استعمال کر کےاپنےآپ کوبیدار رکھتی ہیں تا کہ وہ زیادہ سےزیادہ پیسےکما سکیں۔ ان کا کہنا تھ اکہ مجھےایک نشےکی گولی دو اور میں آپ کےلیےرات بھر ڈانس کر سکتی ہوں۔ ان کی عمر سےمعلوم ہوتا ہےکہ ان کےگاہک بھی اسی عمر کےنوجوان ہوتےہیں۔ اگر کوئی کسٹمر نشےکا عادی ہو تو وہ خواتین کوبھی نشہ، برف اور کوکین جیسی چیزیں پیش کر کےزیادہ خوشگوار بنانےکی کوشش کرتا ہے۔ کئی بار ایک لڑکی کوبہت سی نشیلی دعائیں ایک ساتھ کھانی پڑتی ہیں جس کا انہیں بہت برا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔


کچھ معاملات میں سیکس ورکر اور ڈانسر نشےکی حالت میں پشاور کےپرائیویٹ ری ہیب کی سہولت گاہ میں جانا پڑتا ہے۔ چونکہ نشےکی دوائیں پشاور کی انڈر گراونڈ مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں اسلیےاس کاروبار میں سیکس ورکرز کا داخلہ بہت آسان ہے۔ وہ ایسی نشیلی دوائیوں کی عادت ڈال دیتی ہیں جن کےاخراجات ان کےلیےپورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ نہ تو جسمانی طور پر اور نہ ہی مالی طور پر ان منشیات کا استعمال جاری رکھنےکی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بہت سےسخت مزاج کسٹمرز ان پر تشدد کرتےہیں اور ان کی آنٹیاں ان کا استحصال کرتی ہیں اور سیکس ورکر کی کمائی کا زیادہ حصہ اپنےپاس رکھ لیتی ہیں۔

کئی بار ایسا بھی ہوا کہ سیکس ورکرز زیادہ کام کر کےزیادہ نشہ کی وجہ سےبےہوش ہو گئیں۔ پشاور کی ایک سیکس ورکر ناز نےبتایا کہ ایک بار ایک سیکس ورکر کی موت پارٹی کےدوران واقع ہوئی۔ دوسرےسیکٹرز کی طرح پشاور میں سیکس بزنس میں بھی ورکرز کا مالی، جسمانی اور طبعی استحصال کیا جاتا ہے۔ جعلی نام اور غلط بہانےکر کےسیکس ورکر بہت زیادہ میک اپ اور بھڑکیلےلباس پہن کر اپنی مایوسی اور تھکاوٹ کوچھپاتی ہیں۔

نوٹ : کرداروں کےنام فرضی ہیں۔

حیدر آباد میں حسن بازار سےکوچ کر چکا ہے۔

محمد حسین خان

حیدر آباد کےبازار حسن کی ایک دلال کا شہر کےتاریخٰ ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کےبارےمیں کہنا ہےکہ اب یہاں پہلےوالا کوئی نظام نہیں ۔انہوں نےچائےکی ایک چسکی لی اور اپنےمہنگےنوٹ 5 موبائل فون پر شہر کےسب سےسینئر سیکس ورکر کا نمبر تلاش کرنےلگے۔ پھر وہ بولے: موبائل فون نےکام آسان کر دیا ہے۔ اب لوگوں کومیڈیم یا نوکر کی ضرورت نہیں رہی۔ اب وہ دن گزرےگئےجب کسی سیکس ورکر کی خدمات حاصل کرنےکےلیےکسی مرد یا عورت کی ضرورت محسوس ہو ۔ اب طوائفوں کی تصویریں ڈیل سےپہلےآپ وٹس ایپ پرحاصل کر سکتےہیں۔

اب بازار حسن کوسلم (slum) کےنام سےپکارا جاتا ہے۔ طوائفوں کےبچےگلیوں میں کھیلتےہیں اور مرد خاکی شاہ کےایک دربار کےپاس جمع ہو جاتےہیں۔ سیکس ورکرز کی نئی کاریں بھی ادھر ادھر کھڑی نظر آتی ہیں۔ لیکن اب یہ وہ بازار نہیں رہا جو نواب اور دوسرےامیر زادےفنکاری سےلطف اندوز ہونےکےلیےاستعمال کرتےتھے۔ کچھ کثیر المنزلہ عمارات اور ڈپلیکس آج بھی موجود ہیں جو ماضی کےبازار حسن کی یاد دلاتےہیں لیکن ڈانس اور موسیقی اب موجود نہیں ہے۔ نہ ہی فنکار اور ان کا ٹیلنٹ باقی رہ گیا ہے۔ البتہ کچھ سیکس ورکرز کی وجہ سےقحبہ خانےضرورت موجود ہیں جہاں نوجوان اور عمر رسیدہ خواتین پیسےکمانےکی غرض سےموجود رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں نےاپنےکسٹمر بڑھانےکےلیےسوشل میڈیا کا سہارا لےرکھا ہےاور کلائنٹ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنےموبائل پر تصاویر دیکھتےہوئےدلال نےبتایا: یہ تصاویر دیکھیں۔ یہ سہیل منزل (1973) ہے۔

یہ ایک فلم سٹار خاور الیاس چکوری کی پرانی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔ اس طرح کی عمارات سندھی اور پاکستانی فلم سٹارز کی جائےپیدائش کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگرچہ کچھ سلیبرٹیز بڑی سکرین پر نمودار ہونےسےقبل 70 اور 80 کی دہائی میں یہاں رہائش پذیر تھےلیکن کچھ لوگ اب بھی محرم کےمہینےمیں واپس اپنی رہائش گاہوں کا رخ کر لیتےہیں۔ تبسم (فرضی نام) جو سٹیج آرٹسٹ ہیں اور چکوری اور ماہپارا کےعم عصر ہیں کا کہنا ہےکہ یہ علاقہ اپنی شان و شوکت کھو چکا ہے۔ اب یہاں کچھ نہیں ہوتا۔انہوں نےانگڑائی لیتےہوئےبتایا کہ کیسےسیکس ورکرز مختلف قصبوں اور شہروں میں پھیل چکےہیں۔ اس بازار کی شان و شوکت کا خاتمہ 70 کی دہائی میں ہوا۔

اس دور میں نوجوان عورتوں بالکونی پر کھڑی ہو کر اپنےبال کوکنگھی کرتےہوئےآنےوالوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنےکی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اشاروں کےزریعےاچھےکلائینٹس کواپنےقریب آنےپر آمادہ کرتیں۔ اس طرح کی حرکات لوگوں کےلیےبہت پر کشش ثابت ہوتی تھیں۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ جنسی تعلقات کی خواہشات لیےآتےتھےلیکن کچھ لوگ وہاں مجرا دیکھنےکےلیےبھی تشریف فرما ہوتے۔ ڈانس کرنےوالی خواتین اپنےگھروں کی اوپر والی منز پر سفید شیٹ بچھاتی تھیں۔ طبلہ، ڈھول اور ھارمونیم جیسےاوزار منگوائےجاتےاور کمرےمیں مختلف سائز اور ڈھنگ کےتکیےفراہم کیےجاتے۔ اس طرح کی محفلیں مہذب لوگوں کےلیےہوتی تھیں۔

پھر 1974 میں پولیس نےچھاپا مارا اور یوں رقص و سرور کا یہ سلسلہ انجام پذیر ہوا۔ یہ چھاپہ ذوالفقار علی بھٹو کےدور میں مارا گیا جب مذہبی رہنماوں نےریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کےخلاف حیدر آباد کےمشہور مدینہ مسجد کےقریب احتجاج کیا۔ سینکڑوں سیکس ورکرز اور ڈانس کرنےوالی لڑکیوں کوپولیس ٹرکوں میں لاد کر تھانےلےجا کر بند کر دیا گیا اور یہی وہ دن تھا جب اس بازار کی رونق کےخاتمےکا دور شروع ہو گیا۔ اگرچہ ڈانس اور موسیقی کا اختتام ہو گیا تھا لیکن پراسٹیٹیوشن جاری رہی۔ 90 کی دہائی میں ایک اور چھاپہ پڑا جس سےایک بار پھر یہ کاروبار کچھ عرصہ کےلیےبند ہو گیا۔ اس وقت سےبازار کا فحش کاروبار بال بال بچا۔ اس علاقےکےموجودہ رہائشی لوگ پنجابی کمیونٹی نٹ کےکمتر درجہ کےلوگ ہیں۔

قحبہ خانہ کےآس پاس رہنےوالےلوگ جو اس علاقہ کےبارےمیں جانتےہیں کا کہنا ہےکہ ان لوگوں کا تعلق سرکس سےہوتا تھا یا پھر یہ خانہ بدوش تھے۔ودھو کا پیر سےتعلق رکھنےوالےسلامت فیروز کا کہنا ہےکہ نٹ لوگوں کوجو چیز پرانےرہائشیوں سےممتاز کرتی ہےوہ کلچر اور تہذیب ہیں ۔ پچھلےلوگوں کا کلچر اور تہذیب ان کی خاصیت ہوا کرتی تھی۔ سلامت کےوالد سندھ کےسب سےبڑےموسیقار محروم فیروز گل تھےجو عابدہ پروین کےبھی استاد تھے۔ جن لڑکیوں اور خواتین کوگانےبجانےکا شوق تھا وہ گانا سیکھنےکےلیےگل کےپاس جایا کرتی تھیں۔

علاقےکےسب سےبڑےڈانس ٹیچر معراج حسین المشہور راجو سمرت تھےجو اب 60 سال کی عمر کوپہنچ چکےہیں۔ راجو نےاپنےبیٹےکی مدد سےچائےپیتےہوئےبتایا : میں نےکبھی ان لوگوں سےاجرت نہیں مانگی۔ کوریو گرافر اپنی نظر سےمحروم ہو چکےہیں لیکن اپنا فن نہیں بھولے۔ وہ اب بھی ڈانس کی ٹریننگ دیتےہیں ۔ انہوں نےمسکراتےہوئےکہا: اب USB کا زمانہ ہے۔ اب طوائفیں خود ہی ڈانس سیکھ لیتی ہیں۔ مجھےیاد ہےجب ایک ملکہ (دلال) پولیس چھاپےکےدوران احتجاج کرتےہوئےکہہ رہی تھی کہ طوائف اور ڈانس کوالگ کرو۔ سیکس ورکرز آج بھی وقت کےساتھ چلتےہوئےپیسےکما رہےہیں۔

اس بات کا اندازہ آپ ان کا رویہ اور شاندار لائف سٹائل دیکھ کر ہی لگا سکتےہیں۔ امیر لوگ ان خواتین کا ماہانہ خرچہ اٹھاتےہیں اور اس کےبدلےان خواتین کوکسی اور سےجنسی تعلقات قائم کرنےسےمنع کر دیتےہیں۔ علیشا جو ایک نوجوان پراسٹیٹیوٹ ہےہ نےہاتھ ملاتےہوئےپورےاعتماد سےکہا: جن کےخرچےپر میں ہوں ان کا تعلق نواب شاہ سےہے۔ علیشا کا چہرہ میک اپ سےلدا ہوا تھا اور اس نےکڑھائی والی شلوار قمیض ذیب تن کر رکھی تھی۔ آئی فون 7 اور نوٹ 5 جیسےمہنگےموبائل استعمال کےبارےمیں انہوں نےکہا کہ یہ ان کا مشغلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر امیر دوستوں سےایک مانگو وہ 6 دےجاتےہیں۔ علیشا نےساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اب وہ قحبہ خانےسےآٹو بھان روڈ منتقل ہونےکا بھی ارادہ ظاہر کیا جو حیدر آباد کا مہنگا علاقہ ہے۔ اس نےکہا: ہم آٹوبھان روڈ پر فلیٹ ڈھونڈ رہےہیں۔


1993 میں حیدر آباد کےمشہور سٹیج ڈرامہ رائٹر اور صحافی 67 سالہ سید سرور ندیم نےحیدر آباد کی قحبہ خانہ کی زندگی پر کالا بازار کےعنوان سےڈرامہ لکھا۔ انہوں نےلکھا ہےکہ پراسٹیٹیوشن اصول و ضوابط سےخالی شعبہ نہیں ہے۔ کسی خاتون کی بہو پراسٹیٹیوٹ نہیں ہوتی لیکن اس کی بیٹی ہو سکتی ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ بلوچستان کےایک بگٹی قبیلےکےسردار کا بیٹا جس نےسندھ میں وزیر اعلی کی حیثیت سےخدمات سرانجام دیں اور آج کےایک پی پی لیڈر نےبھی اپنی طالب علمی کےدوران ریڈ لائٹ ایریا میں اکثر وقت گزارا۔ لیکن اب حالات بدل چکےہیں ۔ اب چونکہ ممتاز شخصیت اس علاقےکا رخ نہیں کرتیں اس لیےیہاں کا زیادہ تر علاقہ کوڑےکےڈھیر وار ٹوٹی پھوٹی انفراسٹرکچر اور ابلتےہوئےگٹروں سےبھرا نظر آتا ہے۔ 70 سے80 کی دہائی کےمقابلہ میں یہ منظر صورتحال کےبلکل برعکس ہےکیونکہ اس دور میں یہ علاقہ سب سےزیادہ صاف علاقہ تھا۔ تبسم نےبتایا۔

آج کےدور میں قحبہ خانوں کےراستےبند کر دیےگئےہیں اور قحبہ خانوں کوبھی تھوڑےسےرقبےتک محدود کر دیا گیا ہے۔ بازار حسن اب کمپاونڈ کی شکل اختیار کر چکا ہےکیونکہ اسےآس پاس کےعلاقوں سےعلیحدہ کرنےکےلیےارد گرد دیواریں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ لیکن ایک طرف دیواریں بلند ہوئی ہیں تو دوسری طرف سیکس ورک اس بازار سےرخصت ہوتا ہوا دوسرےعلاقوں کا رخ کر چکا ہے۔ بہت سےسیکس ورکرز نےدوسرےعلاقوں میں جائیدادیں خرید لی ہیں اور بازار میں موجود پرانی جائیدادیں فروخت کر دی گئی ہیں۔ بازار حسن سےتو محروم ہو گیا ہےلیکن پھر بھی یہ حیدر آباد میں اپنا وجود رکھتا ہے۔

ملتان کی بلبلیں

شکیل احمد

لیجنڈز کا یہ ماننا ہےکہ ایک وقت تھا جب ملتان کا پورا شہر دن ڈھلتےہی گھروں کےاندر محدود ہو جاتا لیکن ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں موجود بازار حسن کی رونق شام ڈھلنےکےبعد شروع ہوتی تھی۔ اس وقت اس بازار میں صرف گانا اور موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں جن میں جنوبی ایشیائی موسیقی اور ڈانس سےلوگ محظوظ ہوتےتھے۔ ان محفلوں کےسامعین اور ناظرین کوئی راہ چلتےمسافر نہیں ہوا کرتےتھےبلکہ ان لوگوں پر راگ، ساز اور ڈانس کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ موسیقی کی حوصلہ افزائی کےاس کلچر کی وجہ سےہم اقبال بانو اور عزیز میاں قوال جیسےلوگوں کی موجودگی سےفیض یاب ہو سکے۔ 72 سالہ ماما مرزا سعید کانپتی ہوئی آواز میں بتاتےہیں کہ شام ڈھلتےہی ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں ہزاروں افراد کا مجمع دیکھنےکوملتا تھا۔ اگر کوئی پھسل کر گر جاتا تو وہ ہجوم کےپاوں تلےاپنی جان دےدیتا تھا۔


بازار حسن حرام گیٹ کےباہر نشاط روڈ پر واقع ہے۔ ایک تنگ اور گھومتی ہوئی بنسان نامی گلی اس ڈسٹرکٹ کا ڈاون ٹاون کہلاتی تھی۔ماما کےمطابق 1960 کی دہائی تک شام ہوتےہی یہ علاقہ موسیقی اور ڈانس پرفارمنس کی وجہ سےرونق کا مرکز بن جاتا تھا۔ 70 کی دہائی میں حکومت کی طرف سےپابندیاں لگنا شروع ہوئیں۔ تب بازار صرف رات 9 سے11 بجےتک کھلنےلگا ۔ لیکن اس بازار کومکمل طور پرپا بند نہ کیا گیا۔ ماما نےاپنی یادیں تازہ کرتےہوئےبتایا کہ اس دور میں یہاں 150 کےلگ بھگ قحبہ خانےموجود تھے۔ ماما اپنےبچپن سےاسی علاقےمیں رہائش پذیر ہیں۔ 70 اور 80 کی دہائی اس بازار کا سب سےاچھا زمانہ تھا۔

بلکہ حقیقت یہ ہےکہ بازار کےسب سےمشہور بچےاسی دور میں منظر عام پر اپنی پہچان بنانےمیں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ ماما نےکئی مشہور گائیک جیسےبدرو ملتانی، سریا ملتانیکر، مینا لودھی، بدرو ملتانی (چھوٹی ) اور میاں موتی کےگھروں میں جا کر ان کی موسیقی ڈانس پرفارمنس کےساتھ دیکھی لیکن بازار حسن میں دوسری بہت سی حسیناوں نےاپنی پہچان بنائی اور مین سٹریم شخصیات میں اپنا نام شامل کیا۔

بسا اوقات ان کی خوبصورت آواز کی طرح ان کی محبت کی داستانیں بھی بہت دور تک سفر کرتی تھیں۔ مشہور مصنف اور شاعر شاکر حسین شاکر بتاتےہیں کہ شاعر قتیل شفائی اقبال بانو کا گانا ‘پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے’ جو سیف الدین سیف نےتحریر کیا تھا سننےکےبعد ان سےمحبت میں گرفتار ہو گئے۔ اس کےبعد قتیل صاحب اقبال بانو کی آواز کواپنےتصور میں رکھتےہوئےگانےلکھنےلگے۔

شفائی اقبال بانو کےپیار میں گھرتےگئےاور ایک بار ملتان جا کر انہوں نےاقبال بانو کولاہور آ کر پرفارم کرنےکی دعوت دی۔ کچھ عرصہ بعد فلم ڈائریکٹر سبطین فضلی نےانہیں مشورہ دیا کہ وہ اقبال بانو سےشادی کر لیں۔ نکاح خوان کوفضلی صاحب کےگھر بلایا گیا اور اقبال بانو ریڈیو پاکستان سےاپنےشادی کےجوڑےمیں ایک گانہ گا کر سیدھی اپنےشادی کےمقام پر پہنچیں۔ مسٹر فضلی نےجوڑےکومشورہ دیا کہ نکاح سےپہلےشرائط طےکر لیں۔ اقبال بانو نےبتایا کہ ان کی طرف سےکوئی شرط نہیں ہےسوائےاس کےکہ شادی کےدو سال بعد تک انہیں ان کےکام سےنہ روکا جائے۔

قتیل صاحب نےکہا کہ چونکہ ان کی موسیقی کی وجہ سےوہ ان کےقریب آئےتھےاس لیےانہوں نےان کےگانےپر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن شادی کےبعد انہیں لوگوں کےگھروں میں جا کر پرفارم کرنےسےروک دیا۔ قتیل صاحب نےمسٹر فضلی کےگھر سےجلدی میں رخصت چاہی۔ ایک مؤرخ قاسم رضا کےمطابق “عزیز میاں قوال نےتسلیم ملکہ سےشادی کی جس کا تعلق تلمبا سےتھا لیکن وہ ملتان میں رہائش پذیر تھی۔”


انہیں بازار کی بہت سی بلبلوں کی داستان محبت کےبارےمیں معلومات اسی بازار سےحاصل ہوئیں۔ رضا نےمعلومات شیئر کرتےہوئےبتایا: “مسرت بانو ناہید اختر کی آنٹی تھیں۔ منظوراں بہاولپوری انجمن کی ماں تھیں۔ استاد ذغلام نبی خان سریا ملتانیکر کےرہبر تھےجب کہ استاد باری خان نےبازار کی اکثر فنکار لڑکیوں کی تربیت کی تھی۔ استاد کورےخان مینا لودھی کےاستاد تھے۔ مینا اس بازار کی سب سےخوبصورت آرٹسٹ تھی۔ استاد کریم خان نےآغا حشر کےساتھ مل کر تھیٹر میں موسیقار کی خدمات بھی سر انجام دیں۔”

ملتان ریڈ لائٹ ایریا سےابھرنےوالےصرف یہی لیجنڈ نہیں ہیں۔ دوسرےبڑےناموں میں کندن لال سیگل، بدرو ملتانی، جمیلہ لودھی، روشن آرا بیگم، مائی بدالی، شمشاد بانو، استاد ماشوقےخان، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ اور استاد باری خان شامل ہیں۔ رضا کےمطابق “ملتان کا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کئی صدیوں تک فنکاری کا مرکز بنا رہا۔ اس کےقیام کےاصل وقت کےبارےمیں کسی کومعلوم نہیں۔ البتہ یہ 714 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد کےوقت بھی موجود تھا۔

بعض اوقات یہ بازار تجارت کا مرکز بھی بنا رہا کیونکہ یہاں کےقحبہ خانوں پر مقامی نواب اور جاگیردار آیا کرتےتھے۔ عام لوگوں کوقحبہ خانوں سےباہر کھڑا رہ کر موسیقی سننےاور پرفارمنس دیکھنےکی اجازت دی جاتی تھی۔ ایریا کےاشرافیہ کےلیےڈانس پرفارمنس بند دروازوں کےپیچھےمنعقد ہوتی اور عام لوگوں کوبہت کم ڈانس دیکھنےکےمواقع مہیا ہوتےتھے۔


مشہور سرائیکی شاعر رفت عباس کا کہنا ہےکہ ابتدائی طور پر بازار کوتراب بازار کا نام دیا گیا تھا اور یہ قلعہ کوہنہ قاسم باغ کےباہر واقع تھا۔ بعد میں اسےموجودہ علاقہ میں منتقل کیا گیا۔ عباس نےمزید بتایا کہ آس پاس کےعلاقےکےجاگیرداروں کواس بازار کےآس پاس گھر بنانےپر فخر محسوس ہوتا تھا۔ رضا نےبتایا: یہاں پر رہائش اختیار کرنےوالےخاندانوں کےسخت اصول و ضوابط ہوا کرتےتھے۔ یہ اس لیےتھا کہ آرٹ کی پریکٹس کرنےوالےلوگ اپنےناذظرین کےسامنےبہترین پرفارمنس یقینی بنا سکیں۔ جتنےزیادہ ناظرین ہوتےاتنی ہی زیادہ کمائی ہوتی۔ بازار میں رہنےوالےلوگ اتنےامیر تھےکہ وہ مذہبی جلسوں کےلیے100 تولہ سونا سےبنےتاج عطیہ کر دیا کرتےتھے۔

مؤرخ کےمطابق انڈین فلم انڈسٹری کےپہلےسوپر سٹار کندھن لال سیگہل اکثر اس بازار میں آیا کرتےتھے۔ تقسیم سےپہلےسیگل کوساما ستا ریلوےڈیپارٹمنٹ کا ٹائم کیپر تعینات کیا گیا تھا۔ وہ اکثر ملتان بازار آتےاور وہاں پرفارم کرتےتھے۔ 90کی دہائی میں حالات بدلنےلگے۔ آرٹسٹ حضرات ملک کےدوسرےعلاقوں کی طرف منتقل ہونےلگےاور بازار کمرشل مارکیٹ بن کر رہ گیا۔ ان گلیوں میں جہاں پہلےگانا بجانا دیکھنےکوملتا تھا اب وہاں ہوٹل اور دکانیں ہیں۔ جہاں تک بلبلوں کا سوال ہے، زیادہ تر پہلےہی اڑ چکی ہیں۔