سب زبانی باتیں ہیں،دستاویزات عدالت کو نہیں دکھائی گئیں،اگر فنڈز کے ذرائع ثابت نہ کر سکے تو اثر عوامی عہدہ رکھنے والوں پر پڑے گا،پانامہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی
اردو آفیشل پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تودستاویز ات لے آتے ہیں۔دستاویزات جے آئی ٹی اور عدالت کو نہیں دکھائی گئیں ، دستاویز ہمیں نہیں تو پھر کس کو دکھائیں گے؟منی ٹریل کا ایک سال سے پوچھ رہے ہیں ، کہا جا رہا ہے منی ٹریل ہے، مگر کہاں ہے؟بار ثبوت آپ پر ہے جو ابھی تک نہیں آئے۔سب باتیں زبانی ہی ہیں۔اس سٹیج پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے شریف خاندا ن پر الزامات جھوٹے ہیں ۔رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نہ ادھر سے۔یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کی نہیں ۔بچے اگر فنڈز کے ذرائع ثابت کر دیتے تو سب بری ہوجاتے ، بچے فنڈز کے ذرائع ثابت نہ کر سکے تو اثر عوامی عہدہ رکھنے والے پر بھی ہوگا۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کہ رانا صاحب! بتائیں عدالت میں جعلی دستاویز جمع کرانے پر کیا ہوتا ہے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جعلی دستاویز جمع کرانے پر مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا سات سال قید ہو سکتی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت کی ، وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل ( جمعہ) ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے آغاز میں بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ساری دستاویز جے آئی ٹی میں پیش کرنی چاہئیں تھیں ، اب آپ نئی دستاویز لے آئے ہیں۔باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے دلائل بھی وہی دے آئیں ۔مسٹر راجہ !آپ نے دستاویز وقت پر جمع کرانے کا کہا تھا ، تمام دستاویزات میڈیا پر زیر بخث ر ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے طوور پر کوشش کی ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پر دستاویز میری طرف سے جار ی نہیں کیے گئے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہﺅے کہا کہ الزام یہ ہے نوازشریف نے فلیٹس خریدے ۔الزام ہے مریم نواز وزیر اعظم کی زیر کفالت ہیں۔درخواست گزار پوچھتے ہیں فنڈز کے ذرائع بتائیں۔ مریم نواز پر تو بوگس دستاویز ات دینے کا بھی الزام ہے۔”عدالت کہہ چکی ہے فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے“۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم کے وکیل نے منروا کی دستاویز سے انکار کیا تھا ۔حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا و ہ دبئی نہیں گئے ۔کس نے نوٹری سے تصدیق کرائی ؟ اس سے تو یہ دستاویز جعلی لگتی ہیں ۔ سب نے کہا نوٹری پبلک کی مہر کو نہیں جانتے اس کا مطلب یہ دستاویز غلط ہیں ۔ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین کی جگہ کوئی اورنوٹری تصدیق کیلئے گیا تھا ۔
جسٹس اعجا ز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کو دستاویز پیش کرنے کیلئے پورا سال دیا گیا۔ عزیزیہ مل کے واجب الادا کس نے ادا کیے ؟ کیا کسی پر اسرار نے ادائیگی کر دی ؟کیس یہ ہے دبئی حکومت نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی ۔ الزام یہ ہے بچے بے نامی دار ہیں ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کسی صحیح کام کا بھی ثبوت نہیں ہے۔عزیزیہ سٹیل مل آپ کی ہے مگر آپ دستاویزات چھپا رہے ہیں۔ دبئی حکام نے دبئی سے سکریپ جدہ جانے کی تردید کی۔مریم نواز کی بینی فشل آنر ہونے کی دستاویز موجود ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمار کس دیے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں تاکہ ہم مان لیں ، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں ۔کیا اخبار میں اشتہار دیکر سوال پوچھتے؟عزیزیہ سٹیل مل کے تین حصہ دار تھے ، دستاویز دکھا دیں کہ انہیں بھی حصہ دیا گیا ۔نجی دستاویز میں لکھا جا سکتا ہے سامان ٹائی ٹینک پر گیا ؟جے آئی ٹی نتائج پر حملے نہ کریں ، جواب دیں ۔ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ مل پر کچھ بقایا جا ت تھے تو سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیے گئے تھے۔ رقم منتقلی کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ یہ ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں ۔اس سٹیج پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے شریف خاندا ن پر الزامات جھوٹے ہیں ۔موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز لندن فلیٹس کی مالک ہیں۔لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے ۔ انہوں نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں لند ن فلیٹس کے مالک نوازشریف ہیں؟ رقم کہاں سے آئی اس کا جواب نہ ادھر سے آتا ہے نہ ادھر سے۔یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کی نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر ہیں تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیر اعظم نہیں ہیں۔جعلی دستاویزات کے معاملے نے میرا دل توڑ دیا ، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا ۔گورے چھینک مارتے ہیں تو رومال استعمال کرتے ہیں۔کیا کوئی سرکاری فونٹ چوری کریگا۔عدالت میں غلط دستاویزات کیسے جمع ہوئیں ۔
انہوں نے کہا یہ فونٹ 2007ءمیں آیا مگر ڈیڈ 2006ءمیں تیار ہوئی ، دونوں صفحات پر غلطی بھی ایک جیسی ہے ، بادی النظر میں وہ کہہ رہے ہیں یہ دستاویزات غلط ہے۔بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویز ات کا ہے اور فلحال بادی النظر سے آگے نہیں جانا چاہتے۔عدالت میں جعلی دستاویز ات کیسے جمع ہوئیں ؟ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے ۔یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا ، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہفتے کے روز ہوئے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کیلبیری فونٹ کا معاملہ درست نہیں ، یہ دستاویزات اکرم شیخ نے جمع کرائیں ، معلوم کرونگا یہ کیسے ہوا۔
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔جے آئی ٹی نے یو اے ای خط پر نتائج اخذ کیے ، حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویز نہیں مانگی گئیں۔یو اے ای خط میں حسین نواز سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔ دبئی حکام کی غلطی سے حسین نوازکوملزم ٹھہرایاگیا۔دبئی حکام کےخلاف قانونی چارہ جوئی کاحق رکھتے ہیں۔جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے۔ محمد شریف نے حسن اور حسین نواز کیلئے رقم کا انتظام کیا۔جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ قطری شہزادے سے انٹرویو کی ضرورت نہیں ۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے قطری شہزادے حمد بن جاسم اور بی وی آئی کی دستاویز بھی کھول دیں ۔دستاویز میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو خطوط بھی شامل۔