بازار حُسن سے پارلیمنٹ تک


اگلے دن اخباروں میں خبر تھی کہ محکمہ اوقاف پنجاب میں وہ جانے والے مزاروں کو اپنی تحویل میں لے گا تو میری آنکھوں کے سامنے سے کچھ مناظر لاشعوری طور پر گذرے۔ میں نے 1997 میں بطور ایس ایچ او گڑھ مہاراجہ تھانی کا چارج لیا تو مجھے یاد آیا کہ میری نانی امی مجھے تب دربار حق باہو سلطان لے کر آئی تھیں جب میں بہت ننھا منا سا تھا۔ انہوں نے میری پیدائش کے لئے منت مانی ہوئی تھی کہ میں خیر خیریت سے اس دنیا میں وارد ہو گیا تو وہ سلام کروانے کے لئے مجھے دربار حق باہو لے کر آئیں گی سو وہ لے کر آئیں شکر ہے انہوں نے مجھے سر پر بودی نہیں رکھوائی حالانکہ ان کے دور کے بزرگ بتاتے رہے کہ ارادہ ان کا اس بارے میں خاصا پختہ تھا۔

دو تین بعد میرے محرر نے جب آ کر مجھے دعوت دی کہ کیا میں جیلانی سائیں کو سلام کرنے جانا چاہتا ہوں۔ جیلانی سائیں تب دربار کے متنبیٰ تھے اور بعد میں ہونے والے ایم این اے طاہر سلطان کے سسر بھی تھے۔ طاہر سلطان ایم این اے سے آپ کو یاد آ گیا ہوگا یہ وہی ہیں جن کے بارے میں انکی زوجہ محترمہ نے حیرت انگیز اور ہوش ربا انکشافات کئے تھے۔ جس کتاب میں یہ انکشافات تھے اس کتاب کا نام تھا “بازار حسن سے پارلیمنٹ تک” اور طاہر سلطان کی زوجہ محترمہ تھیں انہیں متذکرہ بالا جیلانی سائیں کی دختر محترم۔ جنہیں میں محرر صاحب کے پر زور اصرار پر ملنے جا رہا تھا۔

دربار میں بچپن کی عقیدت کی وجہ سے بھی دیکھنا چاہتا تھا اور پھر محرم الحرام کا مہینہ بھی آیا چاہتا تھا اور لاکھوں زائرین نے دربار پر آنا تھا اس لئے بطور ایس ایچ او سکیورٹی چیک کرنا بھی ضروری تھا۔ میں دربار میں داخل ہوا تو بیسیوں بندے وضو کرنے والی ٹوٹیوں میں بہنے والے کرنسی نوٹ اکٹھے کر رہے تھے جو زائرین عقیدت سے پانی میں بہا رہے تھے اور اب ان نوٹوں کو نکال کر سکھایا جا رہا تھا۔ نوٹوں کو پانی میں بہتے دیکھ کر دل میں کھد بُد ہانا ناگزیر تھا کہ بندہ جذبات میں بہنے کی بجائے غیر جذباتی طور پر اسی پانی میں بہہ جائے۔ دینی فائدہ بھی اور دنیاوی بھی۔

جیلانی سائیں کے حجرے میں پہنچے تو وہ ایک معذور انسان تھے جن کی ریڑھ کی ہڈی شائد تھی ہی نہیں۔ بس گوشت پوست کا ایک ڈھیر تھا جو صرف ہاتھ ہلا سکتا تھا۔ جیلانی سائیں کے سیکرٹری نے انہیں بتایا کہ سائیں نیا ایس ایچ او سلام کرنے آیا ہے سائیں نے قبولیت سے بازو کھڑا کیا اور نیچے کر لیا یا شائد خود ہی گر گیا۔ سیکرٹری نے اشارہ کیا اور ہم باہر آ گئے ۔ میں نے اجازت مانگی تو انہوں نے دس ہزار روپیہ مجھے دیا۔ میں نے پوچھا یہ کیا تو اُس نے کہا کہ یہ جیلانی سائیں کو سلام کرنے کا عوضانہ ہے اور جو آفیسر بھی انہیں ملنے آتے ہیں اسے اسی طرح نوازا جاتا ہے۔ میں دولت کی فراوانی سے حیران واپس آ گیا لیکن سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ میرا محرر اگلے ہفتے مجھ سے پوچھنے آیا کہ کیا دوبارہ جیلانی سائیں کو ملنے جانا ہے میں نے دوبارہ آمادگی ظاہر کی تو وہ مجھے پھر جیلانی سائیں کے درشن کرانے لے گیا پھر سارا معاملہ ہوا اور میں ہکا بکا واپس لوٹا کہ ان لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ دولت کہاں سے آ رہی ہے اور کہاں پر جا رہی ہے۔

انہیں ایم این اے صاحب کے برادر خورد کو انہیں دنوں وہاں کے ایک شعلہ بیان عالم کی بیٹی سے عشق ہو گیا تھا۔ شعلہ بیان عالم کو اگر جھنگ میں آنے کی اجازت مل بھی جاتی تھی تو یہ موصوف بڑے آفیسرز کو کہہ کر انہیں جھنگ ضلع میں بین کروا دیا کرتے تھے۔ جب معاملے میں گرم جوشی اور مولانا سے ایم این اے کے بھائی کی دشمنی بڑھی تو مولانا کی کار پر فیصل آباد میں فایرنگ ہوئی اور پھر کار میں آگ لگ گئی۔ شعلہ بیان عالم شعلوں میں ایسے گھرے کہ آئندہ کسی بیان کے قابل نہ رہے۔ ان کی لاش نا قابل شناخت تھی لیکن ان کی کلائی پر بندھی گھڑی جس وقت بند ہوئی اسے ہی وقوعہ سرزد ہونے کا وقت تسلیم کیا گیا۔ اب بھی ایم پی ڈی ڈی کورس کے دوران جن آفیسرز کو فورنیزک سائنس لیبارٹری کورس کے لئے لے کر جایا جاتا ہے تو اس کیس اور مولانا شعلہ بیان کی جھلسی نعش کو ضرور زیر بحث لایا جاتا ہے۔

پچھلے دنوں دربار حق باہو سلطان پر حق جتانے والے دو گروپوں کی دوبارہ خون ریز لڑائی کے دوران تین مرید کام آ گئے کیونکہ حق جتانے والے تو لڑنے کے قابل ہیں ہی نہیں وہ لڑا سکتے ہیں۔ ان کے پاس نوٹ ہیں۔ ریڑھ کی ہڈیاں نہیں اور پھر حسب توقع کچھ ہی دنوں میں دونوں فریقین کی صلح ہو گئ تین مرید اپنے پیروں پر قربان ہو گئے۔

میں نے کچھ حالات بتائے ہیں اور وہ بھی ایک دربار کے۔ پیسے کی فراوانی اور اس روپے پیسے کی بدولت سیاست میں کامیابی۔ طاقت کا حصول اور طاقت کے بل بوتے شعلہ بیان علما جیسے خطرناک لوگوں کی زبان بندی جو کسی اور کے قابو نہیں آتے۔ بے گناہ لوگوں کی قربانیاں جو شائد پیدا ہی پیروں پر قربان ہونے کے لئے ہوتے ہیں۔ میں نے خبر پڑھی کہ محکمہ اوقاف حرکت میں آرہا ہے تو مجھے ایسے ہی لگا کہ دفع کریں ہم پولیس والوں کو ہم نہیں لیتے دس ہزار روپے۔ ان مزاروں کو تحویل میں لے لیں کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو بے گناہ مرید قربان ہونے سے بچ جائیں گے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہیں یہ ادبی بے ادبی نہ ہو اگر ایسا ہو گیا تو “بازار حسن سے پارلیمنٹ تک” جیسی کتابیں کیسے بازار میں آئیں گی۔