کیا آپ جانتے ہیں کہ”اتحیات” کا پس منظر کیا ہے ۔


روزمرہ کی عبادات میں سب سے اہم عبادت نماز ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں مختلف پیراہوں میں کئی بار حکم دیا گیا  ہے اور اس کو وقت پر ادا کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ نماز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ نماز میں ہم تشہد کے دوران جو دعا پڑھتے ہیں جو کہ “التحیات” کے نام سے مشہور ہے اس کا پس منظر کیا ہے ؟ در اصل یہ محبوب اور محب کے درمیان کا ایک مکالمہ ہے جو عرش پر پیش آیا اور دینا کا سب سے خوبصورت اور جامع کلام قرار پایا جس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ اس کو اپنی نمازوں کا حصہ بناؤ۔ ” التحیات : کا لفظ تحیۃ سے نکلا ہے جس کا معنی ہےکہ کسی کے آنے پر اس کے لئے خوش آمدید پر مبنی کلام کہنا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنا ہے ۔ جب آپ ﷺ معراج پر تشریف لے کر گئے جو ان کو آسمانوں کی سیر کراتے ہوئے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا جس کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے بھی آگے جانے سے معذرت کر دی ۔ اس کے بعد آپ ﷺ عرش خدا وندی پر پہنچے اور اللہ کے حضور بہترین ہدیہ کلام پیش کیا ۔ آپ نے فرمایا” التحیات للہ واالصلوات والطیبات “جس کے بعد اللہ نے جوابا ارشاد فرمایا ۔ ” السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ” اس کے جواب میں آپ ﷺ نے اپنی امت کے نیک لوگوں کو شامل فرماتے ہوئے دوبارہ خداوند تعالی کے حضور جواب پیش فرمایا ” السلام علینا و علی عباداللہ الصالحین ” اس مکالمہ کو سنتے ہوئے حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا ۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ