’کیا آپ ہمیں یہ بتاسکتی ہیں کہ آپ کی شرم گاہ پر۔۔۔‘ لندن میں دہشتگردوں کے حملے کے بعد پولیس بے گناہ پاکستانی لڑکی کے گھر آگئی اور اس سے ایسا شرمناک ترین سوال پوچھ لیا کہ جان کر آپ کا بھی رنگ لال ہوجائے گا


آج کی مغربی دنیا میں مسلمان ہونا کتنا بڑا جرم بن سکتا ہے اس کا اندازہ برطانیہ میں ایک پاکستانی نژاد طالبہ کے ساتھ پیش آنے والے انتہائی افسوسناک واقعے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ جب مارچ میں برطانوی دارلحکومت میں دہشتگردی کا حملہ ہوا تو 23 سالہ مریم خان بھی اس گروپ کا حصہ تھیں جو حملے کے وقت برطانوی پارلیمنٹ کا دورہ کر رہا تھا۔ حملے کی خبر ملنے پر پولیس اہلکاروں نے فوری طور پر اس گروپ کو اپنی تحویل میں لے لیا لیکن تفتیش کرنے والے اہلکاروں نے صرف مریم کو علیحدہ کیا اور طویل وقت تک اس سے سوالات کرتے رہے۔ بعد ازاں اسے جانے کی اجازت دے دی گئی مگر کچھ دن بعد انسداد دہشتگردی محکمے کے دو اہلکار گھر میں اس کے پاس آگئے اور ایسے شرمناک سوالات پوچھتے رہے کہ تصور کر کے ہی انسان کا سر شرم سے جھک جائے۔
دی میٹرو کی رپورٹ کے مطابق مریم کا کہنا ہے کہ ان سے پہلا سوال یہ کیا گیا کہ وہ اپنا نسلی حلیہ بیان کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سوال سن کر وہ حیران رہ گئیں کہ آخر وہ اپنا نسلی حلیہ کیا بیان کریں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد اہلکاروں نے ان سے انتہائی فحش نوعیت کے سوالات پوچھنا شروع کردئیے۔ ان کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ ” کیا آپ کے جسم کے پوشیدہ حصے پر بال ہیں؟ اور آپ ان بالوں کو شیو کرتی ہیں، ویکس کرتی ہیں یا محض ان کی ٹرمنگ کرتی ہیں؟“ جب مریم نے ان سوالات پر احتجاج کیا تو تفتیشی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ جب دہشتگرد حملہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے خود کو پاک صاف کرنے کیلئے جسم کے پوشیدہ حصوں سے بال صاف کرتے ہیں۔
مریم کا مزید کہنا ہے کہ انہیں یہ جان کر ایک اور دھچکا لگا کہ اس روز پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے گروپ میں جتنے بھی طلبا وطالبات شامل تھے کسی سے بھی اس قسم کی تفتیش نہیں کی گئی۔ چونکہ وہ واحد مسلمان تھیں لہٰذا ان سے نہ صرف تفتیش کی گئی بلکہ انتہائی ذاتی نوعیت کے بلکہ انتہائی شرمناک سوالات بھی کئے گئے۔ پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے مطالعاتی گروپ کی راہنمائی کرنے والے لیکچرر ڈیوڈ ہومز نے بھی مریم کے ساتھ اس امتیازی سلوک کی تصدیق کی۔
دوسری جانب برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ ویسٹ منسٹر دہشتگردی کے سلسلے میں 4800سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے ہیں اور کسی کی جانب سے بھی امتیازی سلوک کی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ پولیس کے نمائندے کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید اہلکاروں سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی، جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔