”دنیا میں نہ تو ہر شے بکاؤ ہوتی ہے اور نہ ہی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے” صدر الدین ہاشوانی کا عربی شہزادے کو دئے گئے


معروف کالم نگار ارشاد بھٹی نے اُردو پوائنٹ کے لیے لکھے گئے اپنے خصوصی کالم میں پاکستان کی بڑی کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی اور ان کے معروف ہوٹل میں عربی شہزادے کی آمد کی کہانی بیان کی ۔ ارشاد بھٹی لکھتے ہیں کہ ایک عربی شہزادہ جو پاکستان اپنے ذاتی طیارے پر آیا اور جس کا 3وزراءنے ائیر پورٹ پر استقبال کیا اور پھر جسے خصوصی پروٹوکول میں اسلام آباد کے فائیو سٹا ر ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ۔
اسی شہزادے نے جس شام اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہوٹل میں ڈیرے ڈالے اس سے اگلی صبح ہوٹل انتظامیہ نے دیکھا کہ عجیب وغریب حلیوں والے 5،7 لوگ انواع واقسام کے کھانے اٹھائے آرہے ہیں۔ جب پوچھا گیا کہ آپ کون او ریہ سب کیا تو جواب ملا ” ہم پرنس کے خدمتگار اور یہ ہے پرنس کی پسندکی جگہ سے لایا گیا ان کا پسندیدہ ناشتہ “ پھر جب ڈھلتی دوپہر میں لنچ اور عشاءکے بعد یہی لوگ ڈنر کے ساتھ بھی آن پہنچے تو ڈیوٹی منیجر نے شہزادے کے پاکستانی سٹاف افسر کو کمرے میں فون کر کے کہا کہ ” ایک تو یہ ہوٹل کی پالیسی نہیں کہ کسی کیلئے کھانا باہر سے آئے اور دوسر ا آپکا کھانا آتا بھی اس طرح ہے کہ کسی کے ہاتھ میں نان تو کسی کے سر پر سالن کا دیگچہ اور کسی کی بغل میں سلاد اور چٹنیوں کے لفافے ، ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی فائیو سٹار ہوٹل نہیں کوئی مسافر خانہ یا ریلوے اسٹیشن ہے۔
برائے مہربانی باہر سے کچھ منگوانے کی بجائے ہمیں بتائیں ہم آپکو سب کچھ بنا کر دیں گے لیکن ا گلے دن جب نہ صرف صبح بلکہ دوپہر کو بھی یہی کچھ دوبارہ ہوا تو ڈیوٹی منیجر نے جنرل منیجر کو آگاہ کیا اور پھر جب جنرل منیجر نے شہزادے کے اسی پاکستانی سٹاف افسر سے بات کی تووہ بولا” میں تو کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ کھانا پرنس کی خواہش پر باہر سے آرہا ہے اور جب تک پرنس چاہیں گے تب تک کھانا باہر سے آتا رہے گا “ ،یہ جواب سننے اور کافی سوچ بیچار کے بعد جنرل منیجر نے سٹاف افسر کو دوبارہ فون کر کے کہا کہ” میں پرنس سے خود بات کرنا چاہتا ہوں لہٰذا میری ملاقات کروائیں“ ،خیر رات گئے پرنس کا دیدار نصیب ہواتو جنر ل منیجر نے جب رائل سوئیٹ کے ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز پرنس کے سامنے کھڑے کھڑے اپنی گوش گذار کی تو انتہائی ناگواری سے شہزاد ہ بولا ” تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ میں کیا کھاتا اورکہاں سے منگوا کر کھاتا ہوں “ یہ سن کر جنرل منیجر نے عرض کی ” مگر ایکسی لینسی یہ ہوٹل کی پالیسی نہیں ہے “ مسلسل ٹی وی کے چینل بدلتے پرنس نے جنرل منیجر کو دیکھے بغیر غصیلے انداز میں کہا ”میں نے جو کہنا تھا کہہ دیااب تم جا سکتے ہو “ لیکن جب جنرل منیجر نے جانے کی بجائے پھرکچھ کہنے کی کوشش کی تو اچانک ٹی وی کا ریموٹ دیوار پر مار کر پرنس چیخا ”تم بے وقوف ہو یا بہرے ، تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا۔
۔۔ یہ میری مرضی ہے کہ میں کیا کھاؤں اور کہاں سے منگوا کر کھاؤں ، تمہاری یہ جرات کہ مجھے ہوٹل کی پالیسی سمجھانے آگئے“ یہ کہہ کرغصے میں ہانپتے کانپتے پرنس نے لمحہ بھر کیلئے رک کر اپنی سانسیں درست کیں اور پھر چلایا ” اس ہوٹل کا مالک کون ہے “ چپ چاپ کھڑے جنرل منیجر نے جب بتایا کہ ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی ہیں تو شہزادہ بولا ” میں 5منٹ بعد نیچے آرہا ہوں تم اپنے مالک کو بلالو کیونکہ میں ابھی اور اسی وقت یہ ہوٹل خریدنا چاہتا ہوں “ اور پھر جب چیک بک ہاتھ میں پکڑے شہزادہ واقعی نیچے آگیا اور جب جنرل منیجر کی سمجھانے بجھانے کی ہر کوشش رائیگاں گئی تب جنرل منیجر نے مجبوراً صدرالدین ہاشوانی کو فون کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد کہا کہ ” اس وقت چیک بک لیئے ایکسی لینسی میرے سامنے کھڑے ہوٹل کی قیمت پوچھ رہے ہیں “یہ سن کر صدرالدین ہاشوانی بولے ” پرنس کو میرا سلام دے کر پہلے تو یہ بتانا کہ میں نے ان کے رہنے اور کھانے پینے کے تمام اخراجات معاف کیئے اور پھر ا نہیں اگلے آدھے گھنٹے میں ہوٹل سے نکال کر میرا یہ پیغام دینا کہ ” دنیا میں نہ تو ہر شے بکاؤ ہوتی ہے اور نہ ہی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے “یہ کہہ کراُدھر صدرالدین ہاشوانی نے فون بند کیااوراِدھر ہوٹل انتظامیہ حرکت میں آگئی اور پھر آدھا گھنٹہ کیا 20منٹ بعد ہی ہکا بکا پرنس اپنی دھونس ،دھمکیوں اور خدمتگاروں سمیت ہوٹل سے روانہ ہو چکا تھا ۔