اس گھر میں یہ کتاب رہے گی یا پھر میں رہوں گی


امریکہ میں ایک نوجوان تھا، کلمہ گو مسلمان تھا، لیکن جس دفتر میں کام کرتا تھا، اس دفتر میں کام کرنے والی ایک امریکن لڑکی سے اس کا تعلق ہو گیا، اس کا یہ محبت کا تعلق اتنا بڑھا کہ اس نے محسوس کیا کہ اب میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، چنانچہ نے پروپوزل (تجویز) بھیج دی کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لڑکی کے والدین نے کہا ہماری یہ شرط ہے کہ ہم عیسائی ہیں اس لیے آپ کو اپنا دین چھوڑ کر عیسائی ہونا پڑے گا . *.. والدین سے قطع تعلق کرنا پڑے گا . آپ اپنے ملک واپس نہیں جایا کریں گے.جس کمیونٹی میں آپ رہتے ہیں اس کمیونٹی کے لوگوں سے آپ بالکل نہیں ملا کریں گے.اگر آپ یہ تمام شرائط پوری کر سکتے ہیں تو ہم اپنی بیٹی کی شادی کر دیتےشادی کر دیتے ہیں، یہ اپنے جذبات میں اس قدر مغلوب الحال تھا کہ اس اللہ کے بندے نے یہ تمام شرائط قبول کر لیں، ماں باپ سے قطع تعلقی، عزیز و اقارب سے رشتہ ختم، ملک سے رشتہ ختم، جس کمیونٹی (مسجد) میں رہتا تھا، وہاں آتا جاتا تھا وہاں سے رشتہ ختم، حتیٰ کہ اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائی بن گیا اور عیسائیوں کے ماحول میں زندگی گزارنے لگ گیا، پھر اس نے اس لڑکی سے شادی کر لی، مسلمان بڑے پریشان، کبھی کبھی وہ اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے مگر وہ ان سے ملنے سے کترایا کرتا تھا، کہیں پبلک میںمل جاتا تو یہ دور سے کنی کترا جاتا تھا، لوگ بالآخر تھک گئے. کسی نے کہا: اس کے دل پر مہر لگ گئی۔

کسی نے کہا: مرتد ہو گیا*… کسی نے کہا: اس نے جہنم خرید لی. کسی نے کہا: اس نے بڑا مہنگا سودا کیا.جتنے منہ اتنی باتیں، اسی حال میں اس کو ایک سال گزر گیا، دو سال گزر گئے، چار سال یونہی گزر گئے، اس کے دوست احباب اس سے مایوس ہو گئے،حتیٰ کہ یہ ان کی یادداشت سے بھی نکلنے لگ گیا اور بھولی بسری چیز بنتا چلا گیا، اچانک ایک دن امام صاحب نے مسجد کا دروازہ کھولا،یہ نوجوان بھی فجر کی نماز پڑھنے کے لیے آیا، وضو کیا اور مسجد میں صف میں آ کر بیٹھ گیا، امام صاحب بڑے حیران! ان کے لیے تو یہ بڑی عجیب چیز تھی، انہوں نے نماز پڑھائی، پھر اس سے سلام کیا اس کو اپنے حجرہ (کمرے) میں لے گئے،انہوں نے محبت پیار سے بٹھا کر ذرا پوچھا کہ آج بڑی مدت کے بعد آپ کی زیارت نصیب ہوئی.اس وقت اس نے اپنی حالت بتائی کہ میں نے اس لڑکی کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا،بہت کچھ میں نے اپنا ضائع کردیا لیکن جس گھر میں رہتا تھا، میرے اس گھر میں ایک جگہ پر اللہ کا قرآن پڑا ہوا تھا، میں جب کبھی آتا جاتا میری نظر اس قرآن مجید پر پڑتی تو میں اپنے دل میں سوچتا کہ یہ میرے مولا کا کلام ہے اور یہ میرے گھر میں موجود ہے،میں اپنے نفس کو ملامت کرتا کہ تو ظاہر میں جو بنا پھرتا ہے، پھر بھی تیرے دل میں اللہ کا ایمان موجود ہے، اعمال میرے برے تھے لیکن دل مجھے کہا کرتا تھا: میں نے جس کا کلمہ پڑھا،

میں اس سے محبت کرتا ضرور ہوں اس لیے اس کی نشانی میں نے رکھ رکھی ہوئی ہے.اسی طرح کئی سال گزر گئے، ایک دن میں آیا اور حسب معمول میں نے گزرتے ہوئے اس پر نظر ڈالی تو مجھے وہ کتاب نظر نہ آئی،میں نے وائف سے پوچھا کہ ایک کتاب یہاں پڑی تھی، وہ کدھر ہے؟ اس نے کہا: میں نے گھر کی صفائی کی تھی تو جو غیر ضروری چیزیں تھیں، جو استعمال نہیں ہوتی تھیں ، ان سب کو میں نے ٹریش کر دیا (یعنی ان کو الگ کرکے ایک گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا)اس نے پوچھا اس کتاب کو بھی؟ اس نے کہا: ہاں! یہ نوجوان وہیں سے واپس گیا اور جا کر ٹریش کیبن میں سے وہ کتاب اٹھا لایا،جب لڑکی نے دیکھا کہ یہ بڑی Strong feelings(شدید جذبات) کا اظہار کر رہا ہے اس کتاب کے بارے میں تو وہ بھی محسوس کرنے لگی کہ آخر کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا کہ بس میں اس کتاب کو گھر میں رکھنا چاہتا ہوں.جب اس لڑکی نے کتاب کو دیکھا کہ عربی ہے تو اس نے سوچا کہ اس کا اس سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے،وہ کہنے لگی: دیکھو! یا تو اس گھر میں یہ کتاب رہے گی یا پھر میں رہوں گی، تمہیں آج یہ فیصلہ کرنا ہے.جب اس لڑکی نے کہا تو میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ تو نے نفس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ کچھ کر لیا جو تجھے نہیں کرنا چاہیے تھا،

آج تیرا رشتہ پروردگار سے ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا، اب تو فیصلہ کر لے کہ تو اس لڑکی کو چاہتا ہے یا پھر اپنے پروردگار کو چاہتا ہے، جب میں نے اپنے دل میں سوچا تو دل نے آواز دی کہ نہیں،میں اپنے مولا سے کبھی نہیں کٹنا چاہتا ہوں، میں نے اس لڑکی کو طلاق دے دی،اب میں نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور ہمیشہ کے لیے پکا مسلمان بن گیا ہوں.تو اتنا غافل مسلمان ہو کر بھی دل میں اللہ رب العزت کی محبت کا بیج موجود ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں کسی کو فسق و فجور میں مبتلا دیکھ کر حقیر نہ سمجھنا چاہیے، کیا خبر ! اس کے دل میں محبت الٰہی کی جو بیج اور چنگاری چھپی ہے اسے یکلخت کہاں سے کہاں تک پہنچا دے.