یہ بات 2 مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی جو طبی جریدے جاما کارڈیالوجی میں شائع ہوئیں۔یہ دونوں تحقیقی رپورٹس جرمنی میں ہوئیں جن میں سے ایک میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے 39 افراد کے پوسٹمارٹم کیے گئے۔یونیورسٹی ہارٹ اینڈ وسکولر سینٹر کی اس تحقیق میں جن افراد کی میتوں کا تجزیہ کیا گیا، اور مانا جارہا تھا کہ ان میں سے 35 نمونیا کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔تاہم پوسٹمارٹم سے انکشاف ہوا کہ 61.5 فیصد افراد کے دلوں پر اس وائرس سے سنگین اثرات مرتب ہوئے۔ان 24 میں سے 16 کیسز میں وائرل آر این اے کی ایک ہزار سے زائد نقول فی مائیکروگرام دریافت کی گئیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ان میں وائرس کی مقدار بہت زیادہ تھی۔درحقیقت 5 کیسز میں وائرل لوڈ بہت زیادہ تھا، اور اس وقت بھی جب حرکت قلب تھم گئی تھی، وائرسز بدستور اپنی نقول بنارہے تھے۔دوسری تحقیقی یونیورسٹی ہاسپٹل فرینکفرٹ کے زیرتحت ہوئی جس میں ایسے سو افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
تحقیق کے دوران ان مریضوں کے دلوں کو نقصان پہنچنے کے شواہد کے لیے ایم آر آئی اور خون کے ٹیسٹ کیے گئے۔یہ عمل کورونا وائرس کی تصدیق کے فوری بعد نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے 71 دن بعد شروع کیا گیا تھا، یعنی ابتدائی تشخیص کو لگ بھگ ڈھائی ماہ ہونے والے تھے۔اس تحقیق میں ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے دلوں کو جوان سمجھا جاسکتا تھا کیونکہ اوسط عمر 49 سال تھی۔ان میں سے بیشتر مریضوں میں زیادہ سنگین علامات نظر نہیں آئی تھیں بلکہ دوتہائی افراد کو تو ہسپتال بھی داخل نہیں کرنا پڑا تھا۔تاہم ایم آر آئی ٹیسٹوں سے ثابت ہوا کہ 78 فیصد افراد کے دلوں میں کسی قسم کی خرابیاں پیدا ہوچکی تھین، جن میں ورم سے لے کر بائیں شریان کے بڑھنے اور خون پمپ کرنے کی صلاحیت گھٹنا قابل ذکر تھے۔ان میں سے بیشتر میں دل کے پٹھوں یا اوپری غلاف میں ورم کو بھی دیکھا گیا اور اس قسم کا ورم وقت کے ساتھ دل کو نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر اگر پٹھے ورم کا شکار ہوں تو دل خون پمپ نہیں کرپاتا۔دوسری جانب اوپری غلاف میں ورم کی شدت بڑھنے سے ہارٹ فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ ہارٹ اٹیک یا فالج کا امکان بھی ہوتا ہے کیونکہ خون درست طریقے سے جسم کو خون فراہم نہیں کرپاتا۔یہ خون دل میں جمع ہوکر لوتھڑوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے
جس کے نتیجے میں فالج یا ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔اس تحقیق میں شامل 12 افراد کے دل کے پٹھوں کے مختلف حصوں میں آکسیجن کی کمی کو دیکھا گیا جبکہ 3 میں دل کے افعال میں مسائل اتنی شدت اختیار کرچکے تھے کہ نمونے لے کر دیکھا گیا کہ اندر کیا چل رہا ہے۔دل کے ٹشوز کے نمونوں سے ورم کا انکشاف تو ہوا مگر وائرس کے آثار دریافت نہیں ہوسکے۔محققین نے 76 فیصد افراد کے خون میں دل کے افعال کے لیے مددگار پروٹین کی ایک قسم troponin کو دریافت کیا گیا جو اسی وقت دوران خون میں نظر آتا ہے جب دل کے پٹھوں کو نقصان پہنچا ہو۔اسی طرح ایم آر آئی کے موقع پر 17 افراد کو سینے میں تکلیف کا سامنا تھا، 20 میں دل کی دھڑکن کی رفتار میں غیرمعمولی تبدیلیاں آئی تھیں جبکہ 36 کو سانس لینے میں مشکلات اور تھکاوٹ کی شکایات تھیں۔تحقیق میں مختلف سوالات کا جواب نہیں دیا گیا جیسے کووڈ 19 کی تشخیص کے 2 ماہ بعد بھی ان مریضوں کو وائرس کا سامنا تھا یا نہیں؟ یا دل کو پہنچنے والا نقصان کووڈ 19 کا براہ راست نتیجہ تھا؟اس سے قبل رواں ماہ کے وسط میں بھی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 بہت زیادہ بلڈ کلاٹس کا باعث بننے والا مرض ہے جس سے پورے جسم میں اعضا متاثر ہوتے ہیں۔اس نئی تحقیق 69 ممالک کے ڈیٹا کو دیکھا گیا اور اس کے نتائج جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہوئے۔تحقیق میں 1261 مریضوں کے ہارٹ اسکین میں 55 فیصد افراد کے دل کے افعال میں مسائل کو دریافت کیا گیا۔تحقیق میں شامل ہر 7 میں سے ایک مریض کے دل کے افعال میں غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی جو ان کی صحتیابی اور زندگی کے امکانات کے حوالے سے بہت عنصر قرار دیا جارہا ہے۔901 مریض جن کے دل کے افعال میں مسائل کو دیکھا گیا، ان میں پہلے امراض قلب نظر نہیں آئے تھے اور اس کے باعث محققین نے نتیجہ نکالا کہ کورونا وائرس ہی دل کے مسائل کا باعث بنا۔یہ تحقیق ایڈنبرگ یونیورسٹی کے برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن سینٹر فار ریسرچ ایکسیلینس کے ماہرین کے زیرتحت ہوئی اور اس میں زور دیا گیا کہ یہ صرف ان افراد تک محدود تھی جن کے بارے میں ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ دل کے مسائل کورونا وائرس کا نتیجہ ہیں۔نئے نتائج اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کورونا وائرس صرف دل کو ہی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ دیگر اہم اعضا کو بھی متاثر کرتا ہے،
جس کی بنیادی وجہ بلڈ کلاٹس نظر آتی ہیں۔مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ سامنے آیا کووڈ 19 کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس سے فالج، ہارٹ فیلیئر، پھیپھڑوں کے مسائل اور کووڈ ٹویئز جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔اب نئی تحقیق کے نتائج میں ممکنہ وضاحت کی گئی کہ ایسے افراد کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح بہت زیادہ کیوں ہے جو دل کے مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو اپنے افعال کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ یہ وائرس پھیپھڑوں میں ورم اور سیال کے جمع ہونے کا باعث بنتا ہے۔اس کے نتیجے میں ہارٹ فیلیئر یا اس کے پٹھوں کو نقصان پہنچتا ہے، جبکہ کچھ کیسز میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس براہ راست پٹھوں کو ٹشوز کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی بیماری ہے جو جسم کے متعدد حصوں بشمول دل پر اثرانداز ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہارٹ اسکینز اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سے ایک تہائی مریضوں کے علاج کو بہتر بنانے میں مدد ملی جن کو اس عمل میں شامل کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ شدید فلو میں بھی دل کو نقصان پہنچنا ثابت ہے مگر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کتنی بڑی تعداد میں مریضوں کے دلوں کو کووڈ 19 سے نقصان پہنچا اور کتنے مریضوں میں افعال متاثر ہوئے۔ان کے بقول اب ہمیں اس نقصان کے میکنزم کو سمجھنے کی ضرورت ہے، یا یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ ریورس ہوسکتا ہے اور اس کے طویل المعیاد اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔