آپ نے پہلے بھی کاق ایسے واقعات سنے ہیں گے جس میں لوگ اپنی محبوبہ کے لیے کیا کیا بنیا لیکن یہ ان سب سے زیادہ عجیب اور حیرت انگیز ہےسندھ کی ایک مشہور اور خوبصورت جھیل جس کا نام “کینجھر” ہے۔ اپنی دلکش خوبصورتی اور شیشے کی طرح چمکتے پانی کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔اس جھیل کے بالکل درمیان میں ایک مقبرہ بنا ہوا ہے جو کہ کسی عظیم فن کا شاہکار معلوم ہوتا ہے۔ روزانہ ہزاروں سیاح اس کو دیکھنے جاتے ہیں مگر اس کی حقیقت سے ہر کوئی واقف نہیں ہے شاید آپ بھی نہ ہوں۔محبت کی داستانیں تو آپ نے ضرور سنی ہوں گی اور محبت کا امیری غریبی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں اسی بات کی گواہی یہ لوک داستان دیتی ہے۔چودھویں صدی میں ٹھٹہ کا بادشاہ جام تماچی کینجھر جھیل کی سیر کو گیا تھا۔ جھیل کے اطراف میں مچھیروں کی بستی آباد تھی وہاں مچھیروں کے چھوٹے چھوٹے گھر تھے
۔جام تماچی جب اس جھیل کی سیر کررہا تھا تو اسے ایک مچھیرے کی خوبصورت بیٹی “نوری” سے محبت ہوگئی اور پہلی دفعہ ایک بادشاہ نے غریب مچھیرے کے گھر بیٹی کا رشتہ مانگ لیا اور دونوں کی شادی ہوگئی۔نوری کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا حسن چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا جو دیکھتا تھا اس کے سحر میں مبتلا ہوجاتا تھا۔مگر شادی کے وقت نوری کو اس بات کا علم نہ تھا کہ بادشاہ کی بقیہ 7 بیگمات اور بھی ہیں۔نوری شادی کے بعد بادشاہ کے محل میں رانی بن کر گئی تو محل کے نوکروں نے بھی اس کو ملکہ کا درجہ دینے کی نفی کردی کیونکہ وہ ایک غریب گھرانے سے تھی۔یہاں بادشاہ نے نوری کو نہ صرف اپنے محل میں عزت سے نوازا بلکہ پورے ٹھٹہ میں نوری کی عزت پورے شاہ و جلال کے ساتھ کروائی گئی۔جام تماچی کی سات ملکائیں کوئی بھی نوری کے حسن کے برابر نہ تھی اور اسی بات سے تمام ملکاؤں نے نوری کے لئے حسد دل میں رکھی۔
نوری صاف دل کی مالک تھی اس کے لئے تمام نوکر اور درباری برابر تھے۔بادشاہ کی سات ملکائیں نوری کے خلاف سازشیں کرتی رہتیں اور بادشاہ کے کان بھرتی رہتیں۔ مگر بادشاہ اپنی محبت پر قائم تھا اسے کوئی فرق نہ پڑا۔لیکن ایک روز درباریوں اور ملکاؤں نے بادشاہ کو بہکا دیا کہ نوری لکڑی کے بکس میں زیورات بھر کر اپنے بھائی کو ہر تیسرے دن دیتی ہے۔بادشاہ نے جب واقعہ کی کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ نوری کو شاہی کھانے نہیں پسند تھے کیونکہ وہ مچھلی اور اس کے کانٹے کھاتی رہی تھی اور بکس میں صرف مچھلی اور اس کے کانٹے آتے ہیں اس کے گھر سے بھائی کے ہمراہ۔یہ وہ موقع تھا کہ جب نوری کی محبت سے بادشاہ کا دل سرشار ہوگیا اور نوری دنیا کی ایک خوش نصیب ملکہ بن گئی۔
لیکن افسوس قسمت کو کچھ اور منظور تھا ۔ نوری کی موت جام تماچی کی زندگی میں ہی ہوگئی۔اس غم سے بادشاہ ٹوٹ چکا تھا اور اس کی یاد میں بادشاہ نے کینجھر جھیل کے بالکل درمیان میں نوری کا مقبرہ بنوایا اور اپنی زندگی کی آخری لمحات اسی مقبرے پر گزارے۔ یوں اس مقبرے کا نام نوری جام تماچی کہلایا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مقبرہ اس شاندار فنِ تعمیر کی مثال آپ ہے جو پانی پر بنا ہوا ہے اور کبھی ڈوبتا نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک قبر نہیں بلکہ پورا مقبرہ ہے جو عمارت کی مانند پکا تعمیر کروایا گیا ہے ۔ اپنے قیام سے آج تک وہ اسی جگہ پر موجود ہے۔اس رومانوی داستان کی محبت کا اعتراف شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں بارہا فرمایا۔س بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں ۔