پاکستا میں بجلی جاتی ہے تو لوگ بہت پریشان ہو تے ہیں اور جب بل آتا ہے تو لوگ اور زیادہ پریشان ہوتے ہیں یہ مسئلہ پرانا ہے کہ آپ کو سورج کی تپش اور گرم موسم سے بچنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر اے سی آن کرنا بجٹ پر کافی بھاری بھرکم بوجھ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ایجاداتِ نو اور ٹیکنالوجی نے ہمیں اس مسئلے سے نجات دلوا دی ہے؛ آج غریب ہوئے بغیر بھی اے سی جیسے فوائد سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے۔انورٹر ٹیکنالوجی والے اے سی کم بجلی خرچ کرتے ہیں، پیسے بچاتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ آرام فراہم کرتے ہیں۔تو آخر یہ انورٹر پر مشتمل ایئر کنڈشنگ ہے کیا اور یہ موجودہ ٹیکنالوجی سے کس طرح مختلف ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیںہم عام طور پر اپنے کمرے کا درجہء حرارت اپنی ضرورت کے مطابق رکھتے ہیں
(مثلاً ہم تھرموسٹیٹ کو 25 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھتے ہیں)۔ ہماری خواہش کے مطابق درجہء حرارت حاصل کرنے کے لیے کمپریسر کو ایک مقررہ رفتار سے چلنا ہوتا ہے جو کہ اس کی سب سے زیادہ رفتار ہوتی ہے، جس کے باعث بجلی بھی سب سے زیادہ خرچ ہوتی ہے۔درجہء حرارت مطلوبہ سطح پر پہنچ جانے پر تھرموسٹیٹ کمپریسر ٹرپ کر دیتا ہے اور اس کا بلوور کافی سست رفتاری سے چلنے لگتا ہے۔ پر اگر ہمارے کمرے میں ہوا لیک ہونے کے راستے ہوں (جہاں سے گرم ہوا اندر آتی ہو) تو کمرے کا درجہء حرارت یکایک بڑھ جاتا ہے۔ نتیجتاً تھرموسٹیٹ کمپریسر کو پھر سے چلنے اور ہمارے مطلوبہ درجہء حرارت کو بحال کرنے کی ہدایات جاری کر دیتا ہے۔مثالی طور پر کمپریسر کا ٹرپ ہوجانا فائدہ مند ہونا چاہیے کیونکہ جب کمپریسر چل نہیں رہا ہوتا تو ہم بجلی کم استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ کمپریسر کی بار بار ٹرپنگ اور دوبارہ اسٹارٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ بجلی خرچ ہوتی ہے، کیونکہ جب یہ اپنے نارمل موڈ پر چل رہے ہوتے ہیں اس کے مقابلے میں اسٹارٹ ہونے کے لیے زیادہ بجلی کھینچتے ہیں۔انورٹر ٹیکنالوجی نے اس چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے: کمپریسر کے چلنے کو مختلف رفتار سیٹ کرنے والی ڈیوائس کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے
جو کہ بجلی کے ایک ڈی سی ذریعے سے چلتی ہے۔سادہ زبان میں کہیں تو یہ کمرے کا درجہ حرارت محسوس کرتے ہوئے کمپریسر کو چلانے والی موٹر کی رفتار کو مستحکم رکھتا ہے۔ اگر کمرے کا درجہ حرارت زیادہ ہے تو کمپریسر بھی اس مطابق تیز رفتاری سے چلے گا۔ اگر درجہ حرارت گرتا ہے تو کمپریسر کی رفتار بھی گر جاتی ہے۔یہ ٹیکنالوجی کبھی بھی کمپریسر کو ٹرپ نہیں ہونے دیتی، بلکہ خواہش کے مطابق ٹھنڈک کو برقرار رکھنے کے لیے اسے مناسب رفتار سے چلاتی رہتی ہے۔ اس طرح ایک عام کمپریسر اسٹارٹ ہونے کے دوران بجلی کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔انورٹر اے سی مہنگے ہوتے ہیں مگر یہ اپنی قیمت کو مؤثر کولنگ کے ذریعے پورا کر دیتے ہیں۔ کم اتار چڑھاؤ کی وجہ سے یہ بجلی بھی کم خرچ کرتے ہیں۔انورٹر اے سی بجلی کے بلوں میں 30 فی صد کمی لاتے ہیں مگر ماحول کے درجہء حرارت، کولنٹ گیس کی قسم، موٹر کی قسم اور دوسرے تکنیکی پرزوں کی بناء پر یہ شرح 50 فی صد تک بھی جا سکتی ہے۔اس طرح یہ چیزیں انورٹر اے سی کو کم آواز، کم خرابیوں اور بجلی کے کم استعمال کے ساتھ پرانے اے سی یونٹس کے مقابلے میں زیادہ بھروسہ مند اور مؤثر بنا دیتی ہیں
۔مثال کے طور پر ایک 1.5 کلوواٹ ریٹنگ والا ایک نان انورٹر اے سی 7.0 ایمپیئرز خرچ کرتا ہے اور ایک انورٹر اے سی جو 2.6 کلوواٹ کی ریٹنگ رکھتا ہے، (0.9 سے 3.0 کلوواٹ کے درمیان کام کرتا ہے) 2.8 ایمپیئرز کھینچتا ہے۔ تو ایک نان انورٹر اے سی 8 گھنٹے چلنے پر 10 یونٹس خرچ کرتا ہے، جبکہ ایک انورٹر اے سی اتنی ہی دیر تک چلنے کے بعد صرف 4 یونٹس خرچ کرتا ہے۔اگر ہم یونٹ کی قیمت 6 روپے فی یونٹ مقرر کرتے ہیں تو ایک نان انورٹر اے سی ماہانہ 1,800 روپے کی بجلی خرچ کرتا ہے جبکہ ایک انورٹر اے سی اتنا ہی چلنے پر ماہانہ 720 روپے کی بجلی خرچ کرتا ہے۔ اس طرح آپ کو ماہانہ 1,080 روپے کی بچت ہوتی ہے۔اگر ایک انورٹر اے سی پر 1 لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے اور اسی ریٹنگ اور کولنگ کے لیے ایک نان انورٹر اے سی پر 65,000 روپے کی لاگت آتی ہے، تو انورٹر اے سی کا خرچہ صرف تین سالوں میں ہی واپس موصول ہو جاتا ہے۔اگر آپ کہیں کہ انورٹر اے سی پرانے ماڈلز کے مقابلے میں مہنگے ہوتے ہیں، تو آپ درست بھی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ انورٹر اے سی کے لیے اپنے پیسے خرچ کرسکتے ہیں، تو بدلے میں طویل مدت تک یہ آپ کے کافی پیسے بچائیں گے۔اس بارے میں اپنی رائے کااظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں ۔