مساجد کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں شروع


اگر آج کوئی کہے کہ قائد اعظم نے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیوں کیا تھا ؟ تو اس کو جواب اسے ضرور مل جائے گا ۔ بھارت میں تقریبا تمام مذہبی مقامات خصوصا مساجد پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ایک ہندو تنظیم نے سپریم کورٹ میں 1991 کے قانون کی ایک شق کو چیلنج کیا ہے جس میں 15 اگست 1947 کو تقسیم ہند سے قبل موجود مقدس مقامات کی خصوصی مذہبی حیثیت کو برقرار رکھا گیا تھا۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یہ درخواست ہندو تنظیم ’’مہاسنگ ‘‘کی جانب سے دائر کی گئی ہے تاکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے 1991 کے ایکٹ کی دفعہ 4 کواپنے قانونی اختیار سے تجاوزاور غیر آئینی قراردلوایا جاسکے ۔اس قانون کے تحت کسی مندر کو مسجد اورکسی مسجد کو مندرم یں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

عرضداشت میں ہندو تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس قانون نے ایک اور عقیدے ’’مسلمانوں‘‘کی طر ف سے طاقت کے ذریعے مذہبی املاک پر کئے جانے والے قبضے کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے ۔جس کے نتیجہ میں ہندو عدالت میں کوئی بھی مقدمہ دائر کرکے یا آئین کی دفعہ 226کے تحت ہائی کورٹ میں کوئی مقدمہ دائر کرکے ہندو اوقاف کی املاک یامندروںپر جن پر 15اگست 1947سے پہلے ہی قبضہ کیا جاچکا ہو کی واپسی کیلئے کوئی کوشش نہیں کر سکتے ۔مودی کی سربراہی میں بھارتی حکومت کے اعلی عدلیہ پر اثر و رسوخ کے پیش نظر درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے 1991 کے ایکٹ کی شق 4 کوآئین کی دفعات 14 ، 15 (1) ، 25 اور 26 کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کالعدم کرنے کی درخواست کی ہے۔واضح رہے

کہ بھارت کی اعلی عدالت نے گذشتہ سال 9 نومبر کومتفقہ طورپر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیر کی اجازت دی تھی ۔بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی مسجد کی اہمیت کو مدنظر رکھے بغیر مسلمانوںکو مسجد کی تعمیر کیلئے پانچ ایکٹر زمین الاٹ کرنے کا حکم دیاتھا۔تاہم مسلمانوںکی ایک تنظیم نے ہندو تنظیم کی طرف سے دائر عرضداشت کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے۔ جمعیت علمائے ہند کی طرف سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 1991کے ایکٹ کے خلاف دائر ہندو تنظیم کی درخواست کو سماعت کیلئے منظور نہ کرے ۔دوستو امید ہے آپ کو ہماری پوسٹ پسند آئی ہو گی کمنٹس میں اپنے خیالات کا اظہار ضرور کریں ۔