تین سو حملوں کا ٹارگٹ


سعودی عرب کی معیشت اس وقت ہچکولے کھا رہی ہے اور اس کی وجہ سعودی عرب کی مختلف ممالک میں جاری پراکسی وار کے لئے فنڈ اور خاص کر یمن کے خلاف جنگ ہے جس نے سعودی عرب کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور زیادہ تر اخراجات بھی ہیں برداشت کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود حوثی باغیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا اپنی تمام افواج اور طاقت لگانے کے باوجود یمن میں حوثی باغی طاقت پکڑتے جا رہے ہیں اور مستقبل میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں اس وقت حوثی باغیوں کی پشت پر امریکہ ایران اور اس طرح کی دوسری قوت ہیں کہ جو سعودی عرب کے لیے ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں ایک ڈر پیدا کیا رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سے اسلحہ خریدتے رہے اور ان کا کاروبار چلتا ہے اس کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں بھی بہت سارے ایسے ممالک ہیں جو ایران سے ناخوش ہے اور حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں

جبکہ گذشتہ کچھ عرصہ پہلے حوثی باغیوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دبئی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے اور ان کے آپریشنز بھی کچھ وقت کے لیے معطل ہوچکے تھے جبکہ دوسری طرف دبئی کے حکام نے اس کی مکمل طورپر تردید کیجیے گا تا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اگر ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہوتا تو پوری دنیا کے علم میں آجاتا اسے بات واضح ہوجاتی ہے کہ حوثی باغی سعودی عرب کے خلاف ہیں جنگ لڑنے پر ایک دفعہ نہیں کررہے بلکہ متحدہ عرب امارات ان کے نشانے پر ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ جو کہ حکومت میں نہیں ہے اور مختلف حکومتوں کے اتحاد کے ساتھ بھرپور جنگ کررہے ہیں ان کو فنڈنگ کہاں سے مل رہی ہے اور ان کو تمام طرح دار کہاں سے مل رہے ہیں اس میں شک نہیں کہ ایران اس میں ملوث ہے اور جتنا بھی اسلحہ ان کو آتا ہے وہ امریکہ کا بنایا ہوا ہوتا ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے مسلم ممالک کو اس بات پر مجبور کیا جائے اور ان کو راضی کیا جائے کہ وہ اس جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دے اور حوثی باغیوں کو ختم کریں جبکہ اسلامی اتحادی تنظیم میں بھی اس بات کو رکھا جائے گا اور یہ اس تنظیم کے ایجنڈے میں بھی شامل ہیں