امریکہ کی بدلتی ہوئی ترجیحات


امریکا نے پینٹاگون سے انڈیا کا دفتر نہ صرف منتقل کردیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کافی غصے کا اظہار بھی کیا ہے اس دفتر کو ریپ رسپانس فورس کا نام دیا گیا تھا جو کہ انڈیا کی طرف سے پینٹاگون کے بلڈنگ میں واقع تھا یاد رہے 2000 کے بعد چائنہ ایک معاشی قوت کے طور پر سامنے آ رہا تھا اور پوری دنیا کی منڈیوں میں امریکہ کو زبردست قسم کی مزاحمت پہنچا رہا تھا جس کے بعد امریکا نے کوشش کی کہ چین کو لگام ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ چائنہ کے اردگرد جتنے بھی مالک ہے ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے اور چائنہ کی معاشی قوت پر ضرب لگائی جائے اس کے لیے سب سے پہلے امریکہ نے انڈیا کا انتخاب کیا انڈیا کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے ایسے چائنا کے ساتھ بھی ملتی ہے امریکہ کی شہ پر اور لالچ میں آکر انڈیا نے چین کے ساتھ سرحدی علاقے پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور اس کے ساتھ ساتھ کی مصنوعات کو اپنی مارکیٹ سے اور اپنی منڈیوں سے آؤٹ کرنے کے لیے قومی سطح پر تحریک شروع کی امریکہ نے انڈیا کے ساتھ نیوکلیئر انرجی کا معاہدہ بھی کیا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بہت زیادہ کی تعداد میں اپنے ملکی کمپنیوں کو انڈیا کی طرف بھیجا تاکہ وہ وہاں پر سرمایاکاری کر سکےلیکن انڈیا امریکہ کے معیار پر پورا نہ اتر سکا کیونکہ اس وقت انڈیا روس جیسے ملک سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا ہے جو کہ امریکہ کا سب سے بڑا دشمن جانا جاتا ہے اور ان دونوں ملکوں نے پراکسی وار کے ذریعے کافی سارے ملکوں میں ایک دوسرے کا سامنا بھی کیا ہے اس کے ساتھ کچھ عرصہ کے بعد امن کا معاہدہ کیا اور چائنہ کے صدر کو دعوت دی کہ وہ انڈیا آئے اور یہاں پر ہمارے موقف کو بھی سنیں انڈیا نے چائنا کے ساتھ بدمعاشی کرنے کے بعد یہ سوچ لیا اور سمجھ لیا کہ غیرجانبدار رہنے ہی میں انڈیا کا فائدہ ہے کیونکہ چائنہ کے ساتھ فی الحال وہ کسی بھی حالت میں ٹکر نہیں لے سکتا


حال ہی میں نئے منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسی بدل ڈالی ہے اور اس نے جنگ اور جدل سے نکلنے کی بات کی ہے اور کافی ممالک سے اپنے افواج واپس بلا لیے ہیں جس کے بعد اس نے انڈیا سے کام لینا چھوڑ دیا اور اس کو انڈیا کی مزید ضرورت نہیں رہی تو اس نے پینٹاگون سے انڈیا کا دفتر منتقل کروا دیا اور اس کو اسٹاف کو بھی باہر نکال دیا