خیبر تمہارا آخری چانس تھا ؟ یہ جملہ آخر کیوں ؟


حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ جب ہجرت فرمائی تو وہاں بسنے والے قبیلوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو کہ ایک دوسرے کی حفاظت ایک دوسرے کا ایک دوسرے کی پشت پناہی اور جنگ کی حالت میں مدینہ کی حفاظت کے بارے میں تھا یاد رکھیے اس وقت مدینہ میں انصار کے دو قبائل اور حضرت کے ساتھ ساتھ یہودی قبائل بھی آباد تھے یہودی قبائل دراصل اپنے علماء کی تعلیمات کے مطابق یہاں آباد ہوئے تھے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات میں یہ بات درج تھی کہ ایک آخری نبی آئیں گے جن کا تعلق عرب کی سرزمین سے ہوگا اور اس کتاب میں اس زمین کے بارے میں کچھ نشانہ بھی بیان کی گئی تھی یہ قبائل اپنے علاقوں سے نکلے اور اس زمین کی تلاش میں چلتے چلتے بالآخر مدینہ پہنچ گئے وہاں ان کی نشانی نظر آ گئی اور وہیں پر انہوں نے رہائش اختیار کرلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعوی فرمایا تو یہودیوں کو ایک زور کا جھٹکا لگا کیونکہ ان کے مطابق نبوت کا خاصہ صرف بنی اسرائیل کے ساتھ خاص تھا اور کسی اور کو میں نبی کا آجانا ان کو تسلیم نہیں تھا اس وجہ سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو ماننے سے انکار ڈالا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موجودگی میں ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ اس دوران مختلف مواقع پر یہودیوں نے شرارتی کی اور مسلمانوں کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بات جب حد سے زیادہ بڑھ گئی کہ جب غزوہ خندق میں جب چاروں طرف سے کفار مکہ مشرکین مکہ اور دوسرے کفار کے قبائل نے مدینہ کو گھیر رکھا تھا تو بجائے اسکے کہ معاہدے کی رو سے یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں جان لینے کی کوشش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردار فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے

ان کی چال کو ناکام بنادیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جن کی اور ان کو زبردست شکست دینے کے بعد ان کو ایک زمیں کے طور پر مدینہ میں رہنے کی اجازت دی یہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور مبارک تک خیبر میں موجود رہے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت آئی تو انہوں نے یہودیوں کو عرب کے علاقے سے نکال دیا اور یہ لوگ شام ایران عراق اور دوسرے ممالک میں پھیل گئے لیکن اپنی شکست کو نہ بھولیں گزشتہ دنوں یہودیوں کو انہوں نے اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا خیبر تمہارا آخری موقع تھا اس کا مطلب کہ وہ لوگ ابھی تک خیبر کیوں شکست کو نہیں بھولے اور کیوں بولیں گے کیونکہ ان کو اللہ تعالی نے خود ہی ضدی خودسر اور کرخت مزاج کا خطاب دیا یہ لوگ کسی زمانے میں اللہ کے محبوب ترین اقوام میں سے ہوا کرتی تھی لیکن اللہ کی نافرمانی انبیاء کے قتل اور دوسرے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر ذلت مسلط کی اور ان کو دھتکار دیا حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ قیامت سے پہلے یہودیوں کو اللہ تعالی ایک بار پھر عروج دے گا اور مسلمان ان کے ہاتھوں عظمت اٹھائیں گے اگر آپ دیکھیں تو آج کے دور میں یہودیوں سے پوری دنیا کے مسلمان ہیں اور وہ آج یہ پلے کارڈ اٹھا کر ہمیں بتاتے ہیں کیا تمہارا دور گزر گیا ہے اب ہماری باری ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ حدیثِ مبارکہ میں یہ بھی آیا ہے کہ مسلمان خوب ذلیل ہونے کے بعد اللہ کی طرف رجوع کریں گے تو اللہ تعالی ان میں ایک بندہ بھیجے گا جو ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کو اس ذلت کی زندگی سے باہر نکالے گا اور ایسا بھی آئے گا جب حضرت عیسی علیہ السلام کی رہنمائی میں اللہ تعالی مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں اور یہودیوں کو ختم کر ڈالے گا ناظرین آج کل بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ جو احادیث مبارکہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور خاص کر ان احادیث مبارکہ کے جن میں قیامت کا ذکر ہے اور قیامت سے پہلے کے احوال کا ذکر ہے ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو ٹی وی پر ان حادیث کا کھلے عام مذاق اڑاتے ہیں لیکن انشاءاللہ وہ ضرور آئے گا جب ان لوگوں کو شکست ہوگی اور یہ اپنی موت سے ایسے باغ رہے ہوں ہونگے جیسے ریور بھیڑیے کو دیکھ کر پاتا ہے