برما کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ اپنی حکومت کے روہنگیا بحران سے نمٹنے پر بین الاقوامی جانچ پڑتال کا انھیں کوئی ڈر نہیں ہے، زیادہ تر مسلمانوں نے صوبے سے نقل مکانی نہیں کی ہے اور یہ کہ تشدد رک گیا ہے، انسانی حقوق کی تمام پامالیوں کی مذمت کرتیہوں، جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہے اس کو سزا دی جائے گی ۔
منگل کو ملک کے شمالی رخائن صوبے میں جاری بحران پر اپنے پہلے قومی خطاب میں انھوں نے کہا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے صوبے سے نقل مکانی نہیں کی ہے اور یہ کہ تشدد رک گیا ہے۔آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ یہ خطاب اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ وہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک نہیں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری یہ جان لے کہ ان کی حکومت حالات سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہی ہے۔انھوں نے انسانی حقوق کی تمام پامالیوں کی مذمت کی اور کہا کہ جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہے اس کو سزا دی جائے گی۔
خیال رہے کہ چار لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان رخائن صوبے سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں رخائن صوبے سے روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کے لیے بڑے پیمانے پر نقل مکانی اگست کے مہینے میں مبینہ طور پر پولیس چوکیوں پر مسلح حملے کے بعد شروع ہوئی۔ حکومتان حملوں کا الزام روہنگیا عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے۔
اس کے بعد حکومت کے جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی کریک ڈان شروع ہوا جسے اقوام متحدہ نے نسل کشی سے قرار دیا ۔ جبکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ملک میں جاری بحران پر ان کے رد عمل پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔