ترک خاتون اول امینہ اردوان آج دوپہر اپنے بیٹے بلال اردوان، سماجی امور کی وزیر فاطمہ بتول، ترک ہلال احمر کے سربراہ ابراہیم آلتن، اور کئی ترک این جی اوزکے ہمراہ ڈھاکہ پہنچیں۔ شاہ جلال ائرپورٹ پر بنگلہ دیش کے وزیرمملکت برائےخارجہ امور شہریارعالم نے انکا استقبال کیا۔ جب انھیں استقبالی مشروبات پیش کئے کئے تو امینہ صاحبہ نے شکرئے کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں برمی بچوں کے ساتھ کیمپ پر ہی پانی پیونگی۔ یہ کہہ وہ سیدھاکاکس بازار Cox’s Bazarمیں قائم روہنگیا مہاجرین کے کیمپ روانہ ہوگئیں جہاں ترک وزیرخارجہ مولت چاوش اوغلو پہلے ہی موجود تھے۔ کیمپ پر بڑاجذباتی منظر تھا چھوٹی سی جگہ میں 50ہزار افراد ٹھنسے ہوئے تھے۔
کئی نوجوانوں کے جسموں سے خون بہہ رہا تھا۔ زخمی نوجوانوں اور عصمت دری کا شکار بچیوں کو دیکھ کر امینہ اردوان زاروقطار رو پڑیں لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ وہ تو حوصلہ بڑھانے آئی ہیں چنانچہ چہرے پر ماں کی شفیق مسکراہٹ سجاکر پوچھا’بچو! پڑھائی کر رہے ہو؟ بچے خاموش رہے۔جواب میں مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بولیں ‘بہت بری بات کل سے سب بچے پڑھیں گے اور پہلا سبق میں پڑھاونگی’ ترکی نے امدادی سامان کی پہلی کھیپ میں کتابیں،بلیک بورڈ اور کلاس کا سامان بھیجا ہے۔ چند ترک ٹیچر بھی ساتھ آئے ہیں۔ ترک خاتون نے ایک ایک عورت کو گلے لگایا۔ ماتھا اور گال چوما۔گرم و مرطوب موسم میں کئی دن کے سفر سے ان خواتین کے جسموں سے پسینے کی ناگوار بو کے بھبھکے اڑ رہے تھے۔ ایک تعلیمیافتہ خاتون اسی بنا پر ان کے قریب آنے سے ذرا ہچکچا ئی تو ترک خاتون اول نے اسے گھسیٹ کر اپنے قریب کیا اور گلے لگاتے ہوئے بولی ‘مسلم اخوت مشک و عنبر سے زیادہ معطر ہے’ اسے اپنی باہوں میں لئے ہوئے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اورکہا‘اے ہمارے رب قیامت کے دن اپنے سایہ رحمت میں ہمیں ایکدوسرے کا ساتھ نصیب فرمایئے’
انھوں نے برمی مہاجرین کو یقین دلایا کہ ترکی انھیں تنہا نہیں چھوڑیگا۔ ترک ہلال احمر کے عملے نے کیمپوں میں اپنے دفاتر قائم کرلئے ہیں جبکہ مختلف ترک این جی اوزنے بحالی کے کام کا آغاز کردیا ہے۔ اسوقت سب سے زیادہ ضرورت اس خوف و دہشت کے اثرات کو زائل کرنا ہے جو ان مہاجرین پرطاری ہے۔ اس مقصد کیلئے ترک ماہرین نفسیات کیمپوں میں تعینات کئے گئے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کابندوبست بھی کیا جارہاہے۔ شام کو امینہ ٖاردوان نے ڈھاکہ میں وزیراعظم حسینہ واجد سے ملاقات کی۔ جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسی پر ترک حکومت کے سخت ردعمل کی بنا پر بنگلہ دیش اور ترکی کے درمیان سفارتی کشیدگی ابھی تک موجود ہے۔ ملاقات میں ترک خاتون اول نے حسینہ واجد کو یقین دلایا کہ برمی پناہ گزین بنگلہ دیش کی معیشت پر بوجھ نہیں بنیں گے اور انکی کفالت کے جملہ اخراجات ترکی برداشت کریگا۔