’’میرا نام عارف جمال ہے اور میں ضلع سیالکوٹ کی سب سے بڑی تحصیل ڈسکہ کے ایک گاؤں ’’غالب کے‘‘ کا رہنے والا ہوں۔ یہ آج سے کم و بیش پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ وہ زمانہ آج کے زمانے سے بہت مختلف تھا۔ ہر کوئی عزت و حیا کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ چھوٹوں سے پیار اور بڑوں کا لحاظ خاطر خواہ کیا
جاتا تھا۔ ہر ایک دکھ درد خوشی غمی کو اپنا سمجھا جاتا تھا۔ آج کل تو خون چوسا جا رہا ہے ۔ خیر یہ معاملہ الگ نوعیت کا ہے۔ سب سے اہم اور پیچیدہ مسئلہ اس دور کا شادی کا تھا۔ یعنی کہ شادی کے معاملے میں لڑکی والے تو آرام سے اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھتے تھے جبکہ لڑکے والوں کا حال دوڑتے دوڑتے حال سے بے حال ہو جاتا تھا۔ لڑکے والوں کے
جوتوں کے تلوے گھس جاتے رشتہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ۔۔۔ کالی گوری کم تعلیم یافتہ کو ہنس کر گلے سے لگایا جاتا تب کہیں جا کر بات بنتی۔ ایک ہفتہ قبل ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہمارے گاؤں کی سڑک از سر نو پکی بننے والی ہے اور اس کا ٹھیکہ ہو چکا ہے۔ پھر ٹھیک دوسرے ہفتے سڑک بنانے والا عملہ ہمارے گاؤں پہنچ گیا اور سڑک کا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ان میں ایک لڑکا تھا اشفاق۔۔۔جو ٹریکٹر کاڈرائیور تھا۔ وہ دبلا پتلا جسم کا مالک تھا چھوٹی چھوٹی داڑھی اور بڑی بڑی تاؤ دار مونچھیں اورہاتھ میں ہمیشہ لوہے کا کڑا(کنگن) پہنتا تھا۔ اتفاقی طور پر وہ میرا گہرا دوست بن گیا۔ وہ رات کو جب بھی کام سے فارغ ہوتا سونے کے لیے ہماری بیٹھک میں آجاتا۔ میں نے خصوصی طور پرایک بہترین چارپائی اور بستر اس کے لیے وقف کر رکھا تھا صبح کا ناشتہ بھی وہ میری بیٹھک سے کھایا کرتا تھا۔ ایک رات حسب معمول ہم دونوں کمرے میں بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے کہ امی چائے لے کر آگئیں ۔میں اپنی امی کا اکلوتا وارث تھا میرا کوئی اوربہن بھائی نہیں۔ اس لئے اپنے سیاہ و سفید کا میں ہی وارث تھا۔ باتوں باتوں میں میرے رشتے کی بات چھڑ گئی امی کہنے لگیں کہ ’’اشفاق پتر میں جمال کے رشتے کے لیے پریشان ہوں۔ سوچتی ہوں کیا پتہ کب موت کا بلاوا آجائے اس لئے اپنے پتر کے ماتھے پر سہرا دیکھ لوں مگر کوئی ڈھنگ کا رشتہ مل ہی نہیں رہا۔‘‘ ’’اماں جی! آپ فکر نہ کریں ہمارے گاؤں میں آپ کی ذات برداری کے بہت سے گھر ہیں وہ لوگ آپ ہی کے ہم پلہ ہیں۔ میں ان سے بھائی عارف کے رشتے کی بات کروں گا۔ امید ہے وہ لوگ انکار نہیں کریں گے بس میں اگلے ہفتے جا رہا ہوں اپنے گھر۔۔۔‘‘ یہاں پر میں بتاتا چلوں کہ اشفاق نے اپنے شہر کا نام ’’بارہ‘‘ بتایا تھا جو فیصل آباد کے کہیں قریب ہے۔ بہر کیف وہ چند دنوں بعد اپنے گھر چلا گیا خلاف توقع وہ تین چار دن بعد لوٹ آیا ۔رات کو جب وہ ہمارے گھر آیا تو ہم نے اس سے پوچھا۔ وہ بولا’’میں نے لڑکی کے گھر والوں سے بات کی ہے۔ لڑکی سگھڑ اور اچھی صورت کی مالک ہے اور کافی کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ لڑکی کے دو بھائی دبئی جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور میں نے لڑکی والوں کو آپ کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ لڑکا خوبصورت اور پڑھا لکھا ہے اور پیسے والے لوگ ہیں اور اس رشتے سے راضی ہیں اور رشتے کی منظوری بھی دے دی ہے لیکن انہوں نے ایک شرط بھی رکھی ہے۔ ’’کون سی شرط۔۔۔؟‘‘ میں نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ ’’شرط یہ ہے کہ انہوں نے کہا ہے ’’لڑکے کو ایک بار یہاں لا کر بس دکھلا دو۔ پھر جلد ہی شادی کر دیں گے۔‘‘ وہ بولا۔ میں نے جلدی سے کہا ’’چلتے ہیں۔ میں بھی بہانے سے لڑکی دیکھ لوں گا۔‘‘ ’’ٹھیک ہے پرسوں ہم منہ اندھیرے یہاں سے نکل کھڑے ہوں گے تم تیار رہنا۔‘‘اتنا بول کر وہ خاموش ہوگیا۔ خلاف توقع دوسرے دن صبح کے وقت وہ میرے پاس آگیا اور بولا’’جمال یار مجھے دس ہزار روپے ادھار چاہئے ۔ایک اہم کام آن پڑا ہے۔کل جب تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے تو گھر والوں سے لے کر تمہارے پیسے لوٹا دوں گا۔‘‘
‘‘کیسی باتیں کرتے ہو یار۔ میرے اور تمہارے پیسے الگ الگ تھوری ہیں۔ جب تمہارا جی چاہے لوٹا دینا۔‘‘ میں نے کہا۔ بہرحال میں نے اسے دس ہزار روپے دے دیئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دس ہزار روپے کو جدید دور کے ایک لاکھ جیسی خطیر رقم سمجھا جاتا ہے۔ اگلے دن علی الصبح ہم نکل پڑے۔ جاتے ہوئے میری امی نے مجھے بے شمار دعاؤں سے نوازا اور ماتھ چوم کر جانے کی اجازت دی۔ ہم گاؤں سے تانگے میں بیٹھ کر شہر کی طرف چلے پڑے۔ڈھلتے دن کے ساتھ ہم ایک اسٹاپ پر اتر گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا اسٹاپ تھا۔ یہاں پر ایک فورڈ ویگن کھڑی تھی۔ ہم اس میں بیٹھ گئے ۔ویگن ایک ٹوٹے پھوٹے خستہ حال روڈ پر دوڑنے لگی ۔ پون گھنٹے بعد کنڈیکٹر نے ایک اسٹاپ کا نام لیا تو اشفاق نے اشارہ کیا گاڑی رک گئی اورہم نیچے اتر گئے کنڈیکٹر نے دروازے پر ہاتھ مارا تو ویگن آگے کو روانہ ہوئی۔ یہ ویران اور غیر آباد سا علاقہ تھا ہر طرف کانٹے دور جھاڑیاں اور گھنے درختوں کا راج تھا سامنے بہت گھنا جنگل دکھائی دے رہا تھا سورج مغرب کی گود میں داخل ہونے والا تھا۔ ’’یار! اشفاق یہاں تو انسان کی ذات کیا، کوئی پرندہ تک دکھائی نہیں دے رہا۔ ہم یہاں پر کیوں اتر گئے؟‘‘ میں نے بنظر اطراف کا جائزہ لے کر اس کی طرف دیکھا۔ جواب میں وہ ہلکا سا مسکرایا۔ ’’یہ پگڈنڈی جو جنگل کی طرف جا رہی ہے ناں اس راستے پر چل کر ہم اپنے گاؤں پہنچ جائیں گے۔ اس جنگل کے پار ہمارا گاؤں ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ اٹھا کر سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ اس کا جواب سن کر میں چپ ہوگیا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ اور ہم جنگل کے قریب پہنچ گئے جنگل کو اتنے قریب سے دیکھ کر مجھ پر خوف اور وحشت مسلط ہونے لگی میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا ڈراؤنا اور دہشت ناک جنگل دیکھا تھا۔ مجھے تو ایسا گمان ہو رہا تھا کہ جیسے سیاہ عفریتوں کی فوج اس جنگل میں رہتی ہو۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوں گا وہ مجھے سالم ہڑپ کر جائیں گی۔ میرا تو دل کام نہیں کر رہا تھا کہ جنگل میں داخل ہو جاؤں۔مگر اشفاق ایسے آگے قدم بڑھا رہا تھا جیسے یہاں ہی پیدا ہوا ہو۔ بادل نخواستہ مجھے بھی اس کے پیچھے قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ پگڈنڈی کچھ ایسی تھی جیسے درختوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہو۔جوں جوں ہمارے قدم آگے کو بڑھ رہے تھے جنگل اتنا ہی گھنا اور خوف ناک ہوتا جا رہا تھا یہاں تک کہ اس قدر گھنا ہوگیا کہ آفتاب کی روشنی بھی منہ موڑ کرواپس جا رہی تھی دھوپ کی ایک کرن بھی اندر نہیں آرہی تھی مجھے کچھ اندازہ نہ تھا کہ ہم کتنی دیر تک چل کر آگے نکل آئے ہیںَ جنگل تھا کہ شیطان کی آنت کی طرح جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔تقریبا ایک کلو میڑ چلنے کے بعد دور سے ہمیں ایک بڑی سی عمارت نظر آنے لگی تو اچانک اشفاق رک گیا اور مڑ کر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’وہ دیکھو تمہیں کچھ نظر آرہا ہے۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔! کوئی بڑا سا مکان نظر آرہا ہے۔‘‘میں نے کہا۔ یہ ہمارے گاؤں کے چوہدری صاحب کی حویلی ہے میرا خیال ہے کہ رات ہمیں یہاں گزار لینی چاہئے کیونکہ ہمارا گاؤں ابھی بہت آگے ہے۔ اندھیرا پھیل رہا ہے آگے جانا ہمارے لئے ٹھیک نہیں صبح ہوتے ہی یہاں سے گھر چلے جائیں گے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’جیسے تمہاری مرضی!‘‘ میں نے جواب دیا پھر اس کے پیچھے چل پڑا۔ کچھ دیر بعدہم حویلی کے نزدیک پہنچ گئے حویلی کافی بڑی اور خستہ حال تھی اس کا جگہ جگہ سے پلستر اکھڑا پڑا تھا۔ ساری کی ساری حویلی دیکھنے میں کالی ہو رہی تھی جیسے انسانوں کا نہیں بھوتوں کا مسکن ہو۔ اس کا بڑا سا لکڑی کا بیرونی دروازہ بندتھا۔اس نے کھٹکھٹایا توساتھ ہی دروازہ کھل گیااور اشفاق مجھے لیکر دوسرے کمرے میں لے گیا۔اسکا دروازہ جیسے ہی کھلا ایک ناقابل برداشت بدبو کا بھبھکا میرے ناک کے نتھنوں سے ٹکرایا اندر جا کر دیکھا تو تحیر انگیز منظر تھا۔ دس بارہ آدمی زمین پر بیٹھے شراب سے شغل کر رہے تھے ۔ انمیں سے ایک نے چہرہ اٹھا کر عجیب نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا پھر ہلکا سا مسکرا کر بولا’’آؤ، اشفاق حسین کیسے ہو؟ ‘‘ اس کی آواز نشے سے لڑکھڑا رہی تھی۔ ’’ہم تو ٹھیک ہیں چوہدری صاحب آپ کی دعاؤں سے اور یہ میرا دوست ہے جمال۔۔۔سیالکوٹ سے آیا ہے۔ ہمارا شہردیکھنے کی غرض سے۔۔۔‘‘ چوہدری نے سرتاپا ٹٹولتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر اشفاق سے مخاطب ہوا ’’اس کو تو دوسرے کمرے میں لے جا اور کھانے شانے کو پوچھ۔‘‘ اشفاق مجھے وہاں سے دوسرے کمرے میں لے آیا کمرہ کافی وسیع تھاجہاں پر ایک چارپائی پر بستر بچھا ہوا تھا۔ ’’جمال تم یہاں پر آرام سے بیٹھو میں تمہارے لئے کھانا لے کر آتا ہوں۔‘‘اشفاق بولا۔ میں نے کہا’’ٹھیک ہے جلدی آنا نہ جانے مجھے کیوں بے چینی سی محسوس ہو رہی ہے یہ حویلی اور چوہدری کچھ عجیب سے ہیں۔‘‘ کوئی آدھا گھنٹہ بعد کمرے سے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی پھر ساتھ ہی ایک اجنبی شخص کھانا لے کرآگیا۔ میں نے اس سے اشفاق کے بارے میں پوچھا تو اسنے مختصر سا جواب دیا’’تم کھاناکھاؤ، وہ آجاتا ہے۔‘‘ اور یہ بول کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ کھانا کھائے مجھے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا مگر نہ ہی اشفاق آیا اور نہ کوئی فرد۔۔۔ میں اٹھا اور کھڑکی کھول کر باہر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ باہر سیاہ اندھیرا تحت نشین ہو چکا تھا۔ درختوں پر بہت سے پرندے بول رہے تھے جن میں کوے نمایاں تھے۔آج پہلی بارمیں نے گھر سے دور رہ کر جانا تھا کہ پردیس کیا ہوتا ہے۔ جنگل کے درخت بھی کسی آنے والے طوفان کی طرح خاموش کھڑے تھے۔ جھاڑیوں میں حشرات الارض چیخ چیخ کر اپنے موجود ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔ یک دم باہر سے پھر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی جیسے کوئی لمبے لمبے ڈگ بھرتاہوا دھر ہی آرہا ہو۔ میں نے سوچا شاید اشفاق ہے لہٰذا میں واپس چارپائی پر آکر بیٹھ گیا۔ دروازہ کھلا تولالٹین کی زرد روشنی اندر پڑی ۔ وہ ایک دراز قد لمبی مونچھوں والا شخص تھا جس نے لالٹین اٹھا رکھی تھی ۔اس کے ساتھ چوہدری بھی تھا۔ لاٹین اس نے دیوار پر لٹکا دی۔ ’’اوئے۔۔۔یہ کھڑکی تم نے کھولی ہے؟‘‘ چوہدری کی نظر کھڑکی پر جا کر رک گئی اور وہ کرخت انداز میں بولا۔ ’’جی‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’کیوں کھولی ہے۔‘‘ وہ کھا جانے والے کرخت انداز میں بولا۔ ’’اوہ جی ویسے ہی صرف باہر کا نظارہ دیکھنے کے لیے۔‘‘ میں نے کندھے اچکائے۔ اس نے ایک بلند قہقہہ لگایا پھر بولا ’’اب تمہیں موت تک نظارے دیکھنے پڑیں گے۔‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔ ’’مطلب یہ بچے کہ ہمیں ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی جو ہمارے لئے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلایا کرے اور ہمارے لئے کھانا بنائے۔ برتن اورکپڑے دھونے کے علاوہ باقی کے تمام کام کرے۔ اس سلسلے میں اشفاق سے بات کی تو اس نے دس ہزار کے عوض تمہیں ہمارے حوالے کرکے چلا گیا ہے۔‘‘ ’’کیا۔۔۔؟‘‘ اس کا مطلب کہ اشفاق نے مجھ سے دغا کیا اور آپ اس کے گاؤں کے چوہدری نہیں ہیں۔‘‘ میں جیسے چلایا۔ اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا’’نہیں بچے۔۔۔میں کسی گاؤں کا چوہدری نہیں ہوں اور نہ ہی یہاں کوئی آس پاس گاؤں ہے۔ ہم سب لوگ اشتہاری ڈاکو، قاتل اور لٹیرے ہیں جب بھی کوئی اس طرح کا مجرم بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے تو ہم اس کو پناہ دیتے ہیں ہم قانون کو ڈاکے ، چوری ، قتل گردی کے جرائم میں مطلوب ہیں اور آج سے تم بھی ہم میں شامل ہوگئے ہو۔‘‘پھر دو قدم آگے بڑھ کر اس نے میرا گریبان پکڑ لیا اور گرجدار آواز میں بولا’’خبردار جو یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو تکہ بوٹی کرکے چیل کو اؤں کو کھلا دوں گا اور یہ دیکھ رہے ہو ناں۔‘‘ اس نے ریوالور میرے آگے لہرایا’’اس کی چھ گولیاں تیارے دماغ میں ڈال دوں گا سمجھا۔‘‘بات کرتے ہوئے اس کے منہ کے خدوخال کسی بھیڑئیے کی طرح پھڑک رہے تھے اس نے میرا گریبان چھوڑا اور مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ میں سراسیمگی کی حالت میں سہم کر رہ گیا ۔اب سارا معاملہ میری سمجھ میں آچکا تھا اشفاق چند ہزار روپوں کی خاطر دوستی جیسے رشتے کو پامال کرگیا تھا۔ وہ رات میرے لئے کرب قیامت سے کم نہ تھی میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مجھے اپنی امی کی بہت یاد آرہی تھی وہ میرے بنا اکیلی کیسے رہیں گی ان کا میرے سوا ہے ہی کون وہ تو مر جائیں گی اگرمیں واپس گھر نہ لوٹا تو۔ صبح منہ اندھیرے وہی شخص جو رات کو کھانا لایا تھا کمرے میں آن دھمکا۔ مجھے بستر سے اٹھا کر چوہدری کے پاس لے گیا جو شاید ان سب کا سردار تھا اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا کلہاڑا تھا۔ کلہاڑا میرے ہاتھ میں تھما کر بولا’’چل بچے! آج سے تیرا کام شروع۔ پہلے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لے آ۔۔۔چل اوے تو بھی اس کیساتھ جا اورایک گدھا بھی۔۔۔یہ لکڑیاں کاٹے گا اور تو اٹھا کرلے آنا۔ اور اس منڈے کا خیال رکھنا اگر بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے وہیں زمین میں دفنا دینا۔‘‘ سردارنے کرخت آواز میں کہا۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے کلہاڑا پکڑااور جنگل میں نکل گیا۔اب میرا روز کا معمول بن گیا۔ صبح منہ اندھرے اٹھ کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا وہ آدمی سایہ کی طرح گن لے کر میرے ساتھ چپکا رہتا۔ لکڑیاں کاٹنے کے علاوہ میرے ذمہ دیگر کی کام بھی تھے ان کے کپڑے دھونا ، برتن دھونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ حسب معمول ایک دن میں لکڑیاں کاٹ کر لکڑیوں کو گدھے پر رکھاتھاکہ اچانک ایک عجیب و غریب منظر دیکھ کر مجھے ٹھٹھک کر رک جانا پڑا۔ ایک بڑی سی جھاڑی کے قریب ایک نہایت کالا کوبرا پھن اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کے دائیں بائیں دو سرخ رنگ کے لحیم شحیم سانپ پھن اٹھائے کھڑے پھنکار رہے تھے۔ سرخ سانپوں کی پھنکار اب بتدریج تیز ہو رہی تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ کالے کوبرے پر بہت زیادہ غصہ کر رہے ہوں کالا سانپ پھن موڑ کر دائیں بائیں والے کی طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا پھر اچانک دائیں والے سانپ نے اس پر حملہ کر دیا اور دہ دونوں گتھم گتھا ہوگئے ۔پھر دوسرے نے کالے کی دم پر حملہ کر دیا۔ منظر کافی پرتجسس اور پرتحیر ہوگیا اورمیں بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگا اب وہ تینوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔ یک لخت ایک نے کالے کی دم پر اپنے دانت گاڑھ دیئے وہ اپنا بچاؤ کرنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ دوسرے نے کالے سانپ کے سر کو اپنے دانتوں میں دبا لیا۔ کالا سانپ الٹ پلٹ کر خود کو چھڑانے کے لیے سرگرداں تھا مگر وہ اسے ایسے کھینچ رہے تھے جیسے اس کے دو ٹکڑے کرنا چاہتے ہوں۔ اب کالے کے منہ سے عجیب طرح کی پھنکاریں نکل رہی تھیں اور وہ درد کی اذیت سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ نہ جانے میرے دل میں رحم کی پرچھائی کہاں سے ٹپک پڑی۔ مجھے اس کالے سانپ پر ترس آنے لگا حالانکہ سانپ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دونوں سانپ اسے بری طرح زدوکوب کر رہے تھے اور پھر میں نے کلہاڑے کو بلند کیا ۔پلک جھپکتے ہی ایک سرخ سانپ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس نے کالے کے سر کو چھوڑا اور تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوگیا اور دوسرے نے کالے کی دم سے اپنے دانت نکالے اور پھن اٹھا کر میری طرف دیکھا پھر پھنکار کر قریبی جھاڑیوں میں روپوش ہوگیا۔ کالے نے بھی پھن اٹھا کر ممنوں نگاہوں سے میری طرف دیکھا پھر سر کوہلکی سی جنبش دی جیسے میرا شکریہ ادا کر رہا ہوں اور مخالف سمیت جھاڑیوں میں غائب ہوگیا۔ وہ سانپ جس کو میں نے دو حصوں میں بانٹا تھا اس سے بہت زیادہ گاڑھا گاڑھا سرخ خون نکل رہا تھا جیسے کہ بکرا ذبح کیا گیاہو میں گھبرا گیا اورکلہاڑا اٹھا کر تیزی سے گدھے کے ساتھ حویلی کی طرف دوڑ پرا۔ چند دن حسب معمول کی طرح گزر گئے مگر ایک رات کی بات ہے میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا ایک مردانہ سرگوشی سنائی دی۔ ’’کیسے ہو؟ اجنبی دوست؟‘‘ میں نے جلدی سے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا مگر اپنا وہم سمجھ کر پھر آنکھیں بند کرلیں۔ ’’دوست۔۔۔ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو۔ میں تو تمہارے بہت قریب ہوں۔ بالکل تمہارے پاس۔‘‘اس بار آوازصاف سنائی دی تو میں جلدی سے اٹھ کربیٹھ گیا یہاں میں وضاحت کر دوں کہ میں کمرے میں اکیلا ہی ہوتا تھا۔ ’’کک۔۔۔کون ہے؟‘‘ میں پورے کمرے کو گھورنے لگا۔ ’’اس بات کو چھوڑ دو، یہ بتاؤ کہ تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو۔‘‘ اس کی صاف آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں میں اس قید سے نکل جانا چاہتاہوں۔‘‘ میں بے صبری سے بولا۔ ’’تو ٹھیک ہے دوست کل اسی وقت تیار رہنا۔ میں تمہیں یہاں سے محفوظ طریقے سے نکال دوں گا۔ ‘‘ساتھ ہی اس کی آواز بندہوگئی۔ میں کئی لمحوں تک سکتے کی حالت میں اس آواز کی کھوج میں رہا۔ پھر جیسے ہوش میں آگیا۔ میں کافی دیر تک ذہن پر ذور دے کر اس غیبی آواز کے بارے میں سوچتا رہا پھر میرے ذہن میں آیا کہ ان ڈاکوؤں میں سے کسی ڈاکو کو مجھ پر ترس آگیا ہے اور وہ مجھے یہاں سے نکالنا چاہتا ہے اور آس پاس کہیں خود کو پوشیدہ رکھ کر مجھ سے مخاطب ہے۔ دوسری رات میں چارپائی پر بستر ٹھیک کر رہا تھا کہ وہی غیبی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ ’’کیسے ہو۔اجنبی دوست اور کیا جانے کے لیے تم تیار ہو؟‘‘ ’’میں ٹھیک ہوں اور بالکل تیار ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’تو ٹھیک ہے دوست جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو۔ ہمارے لئے ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ ‘‘ آواز سنائی دی۔ ’’مگر وہ ڈاکو۔۔۔وہ تو مجھے جان سے مار ڈالیں گے۔ ‘‘ میں کچھ خوف زدہ ہوگیا۔ ’’وہ ڈاکو توکیا اس جنگل کی کوئی طاقت و قوت بھی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتی۔‘‘ ’’مگر تم ہو کون؟ اور نظر کیوں نہیں آرہے۔‘‘ میں کمرے میں نگاہیں دوڑا کر گویا اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا۔ ’’دیکھو دوست مجھے دیکھنے کی کوشش مت کرو میں جس طرح کہتا ہوں اسی طرح کرو اگر یہاں سے نکلنا چاہتے ہو ‘‘ اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے مگر مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘ میں بولا۔ ’’تم دروازہ کھولو اور باہر نکل کر جنگل کی طرف قدم بڑھاؤ۔‘‘ جنگل کا نام سن کر میرے پورے وجود میں کپکپی پیدا ہوگئی اور رونگٹے بھی کھڑے ہوگئے مگر اس کی تائید میں باہر آگیا۔ باہر راہدری میں کوئی بھی پہرے دار نظر نہیں آرہا تھا اور تمام کمروں کے دروازے بند تھے۔ میں بڑے بڑے قدم اٹھاتا ہوا بیرونی دروازے کے پاس پہنچا۔ اور دھڑکتے دل کے ساتھ اسے کھول کر باہر نکل آیا۔ باہر اندھیرے کا راج تھا مگر چودہویں کے چاند کی روشنی نے اندھیرے کو کم کر دیا تھا قریبی جھاڑیوں میں حشرات الارض چیخ و پکار کررہے تھے۔ آس پاس سے گیدڑوں اور دیگر پرندوں کی آوازوں نے ماحول پر وحشت برپا کر رکھی تھی میرا دل جیسے بند مٹھی میں بند تھا ڈر خوف کا ظالم سانپ مجھے ڈسنے لگا تھا اور قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھا۔ ’’دیکھو دوست گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنے دل سے ڈر نکال پھینکو تمہیں کچھ نہیں ہوگا اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں بس تم آگے بڑھو اور رکنے کا سوچنا بھی مت۔ ‘‘ اسکی حوصلہ افزائی نے میرے دل کو تقویت بخشی اور میں تیزی سے آگے چل پڑا۔ ایک بات تو جان گیا تھا کہ یہ کوئی بھی ہے انسان ہرگز نہیں کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ میرے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ نیچے سوکھے پتوں کی آواز چرچرارہی تھی میں اسی راستے پر چل رہا تھا جہاں سے اشفاق مجھے یہاں لے کر آیا تھا۔ ’’بھائی کیا تم میری آواز سن رہے ہو۔‘‘ میں نے چلتے چلتے کہا۔ ’’ہاں ۔۔۔دوست میں تمہیں سن بھی رہا ہوں اور دیکھ بھی رہا ہوں۔‘‘ وہ میٹھے لہجے میں بولا۔ ’’بھائی تم کون ہو اور میری مدد کیوں کر رہے ہو۔تمہارا وجود دکھائی کیوں نہیں دے رہا اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ایک ہی سانس میں اتنے سارے سوال۔‘‘ وہ ہنسا۔ تمہیں تمہارے سب سوالوں کے جواب مل جائیں گے جب تم اس جنگل سے نکل جاؤ گے اور ہاں میری بات غور سے سنو۔ تمہارا سائبان صرف رات کا یہ اندھیرا ہے اور صرف اسی اندھیرے میں تم یہاں سے نکل سکتے ہو اگر صبح کی پو پھوٹ پڑی تو تم یہاں سے کبھی نہیں نکل سکتے۔ ہو سکتا ہے تمہیں ڈاکو مار دیں یا پھر کوئی اور ۔۔۔‘‘ اتنی بات کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ اب میں قدرے بھاگ رہا تھا۔ ابھی دو ایکڑ راستہ ہی کٹا تھا کہ عجیب سا شور اٹھا جس سے ماحول پر پرہول دہشت سوار ہوگیا کیونکہ کوئی آدمی بلند آواز میں چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ ’’ارے وہ بھاگاجا رہا ہے پکڑو کوئی اسے۔ جلدی کرو وہ جانے نہ پائے۔‘‘ ساتھ ہی ایک ساتھ‘‘پکڑو ، پکڑو جانے نہ پائے۔‘‘ کی آوازیں گھ�