ایم پی اے ہوسٹل یا طوائفوں کا اڈہ‎


پنجاب اسمبلی کے ایک رکن اسمبلی نے انکشاف کیا ہے کہ ایم پی اے ہوسٹل میں اراکین اسمبلی پیتے ہیں۔طوائفیں ین کے بستر گرمکرنے کے لیے آ جاتی ہیں۔کئی اراکین اسمبلی نے نشے کی حالت میںان کو بھی پریشان کیا ہے۔اس ضمن میں حافظ اقبال خاکوانی ایم پی اے نے کہا ہے کہایم پی اے ہوسٹل میں ارکان شراب نوشی کرتے ہیں اور رات کو طوائفیں ہوسٹل میں آتی ہیں۔راتوں کو یہ حسین بدنوں سے جسمانی تسکین حاصل

کرتے ہیں۔اس سے پہلے کہ مسلہ بنے اسپیکر کو ایکشن لینا چاہئے۔انھوں نے کہا کہی مرتبہ شراب کے نشے میں دھت ارکان نے میرے دروازے پر دستک دی۔مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے کہاس موقع پر اس وقت کے اسپیکرمحمد حنیف رامے موجود نہیں تھے اس لیے ان کے فرائض ادا کرتے ہوئے قائم مقام اسپیکر میاں افضل حیات نے کہا کہ آپ یہ مسلہ چیمبر میںاٹھائیں۔ممران اسمبلی کے مکرہ کردار کی یہ معمولی سی جھلک ہے جو ایک رکن اسمبلی نے دکھائی ہے۔طوئفیں کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں اس سلسلے میں ایک بار نہیں ہزرا بار یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ وہ سرمایہ داروں،جاگیرداروں اور سیاسی کرداروں کی ہی اولاد ہیں۔ہیرامنڈی کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ طوائفیں ایم پی اے ہوسٹل نہیں جائیں کی تو کہاں جائیں گی؟اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت اور طوائفوں کی اکثریت کی رگوں میں ایک ہی طبقے کا خون گردش کر رہا ہے۔شراب نوشی اور شباب لازم وملزوم ہیں۔شراب پر ملک بھر میںپابندی ہے لیکن مراعات یافتہ طبقے کے لوگ اسے سرعام پیتے ہیں۔اراکین اسمبلی ایم پی اے ہوسٹل میں بھی باز نہ آئے۔یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے بھی قومی اسمبلی کے اراکین اور معززین وفاقی وصوبائی وزراء کے بارے میں حقائق منظرعام پر آچکے ہیں کہ وہ شراب و شباب کے رسیا ہیں۔ممبران اسمبلی جب ووٹ لینے کے لیے عوام کے پاس جاتے ہیں تو اپنی نیک نامی کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔انہیں باکردار با اصول دیانتدار کہا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں میں ایسی کوئی خوبی موجود نہیں ہوتی۔عوام سادگی کے ساتھ نسل در نسل ایسے لوگوں کو اقتدار میں لاتے ہیں جن کا کردار قابل نفرت ہے۔خدا کا شکر ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوانوں میں ایک شخص تو پیدا ہوا جس نے حق کی آواز بلند کی۔‎ہم اسپیکر کے کردار پر اس لیے اعتراض نہیں کر سکتے تا کہ معزز ایوانوں کا استحقاق مجروع نا ہو۔ جب اراکین اسمبلی کے زانی اور شرابی ہونے کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اسپیکر کے بند کمرے میں بات کرو۔کون نہیں جانتا کہ ہمارے ساستدانوں اور اراکین اسمبلی حتی کہ وزرا کی بھی ایک بڑی تعداد شراب کی رسیا ہے۔ان کے ذرائع آمدن مکروہ ہیں۔ان کی بدعنوانیاں ننگی ہیں۔یہ عوام کا خون نکالتے ہیں اور شراب پی کر رنڈیوں کو نچاتے ہیں ۔صوبائی اسمبلی کے اسی ایوان میں جب ایک رکن اسمبلی نے پچیس سالہ خاتون کی آبراریزی کی بات کی تو اسپیکر نے یہ نہیں کہا کہ یہ بات سپیکر چیمبر میں کی جائے۔جب اراکین اسمبلی کی شراب نوشی اور ایم پی اے ہوسٹل میں رات کے وقت طوائفوں کے آنے کا ذکر ہوا تو اسپیکر کے استحقاق اور معزین نے جوش مارا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے یہ بات سپیکر چیمبر میں کریں۔چنبہ ہائوس پیپلز ہائوس، ایم پی اے ہوسٹل اور اسلام آباد کے ایم این اے ہوسٹل سے لے کرسر کاری مہمان خانوں تک تمام جگہوں پر اسمبلیوں کے اجلاس کے دوران طوائفوں اور کال گرلز کا راج رہتا۔اس مقصد کے لیے کراچی

اور لاہور میں خصوصی اداے قائم ہیں جہاں سے صحت مند اور خوبرو لڑکیاں سیاسی عیاشیوں کے لیے مہیا کی جاتیں۔اجلاس شروع ہوتے ہی خوبرولڑکیوں کے سوداگر کہتے کہ ہمارا دھندہ شروع ہو گیا ہے۔اکثر اوقات مال کی کمی بھی پیش آتی۔کئی ایسی دوشیزہ بھی ہوتی ہیں جن کے جسم کے خریدار بیک وقت کئی کئی ایم این اے ہوتے۔ان حالات میں مال سپلائی کر نے والےکئی بہانے بناتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو مطلوبہ کال دی جاتی جو ذیادہ دولت مند یا یا اثر ہوتے۔اسلام آباد میں میڈم طاہرہ یہ دھندہ کرتی رہی جبکہ لاہور میں نیا کردار نورین کے نام سے سامنے آیا۔نورین اس وقت لاہور میں تین کوٹھیوں کی مالک ہے۔اس نے کئی گاڑیاں اور موبائل فون رکھے ہیں۔وہ عمر کے حساب سے اڈھیر عمر کہلاتی ہے لیکن برے کام کے لیے بری نہیں سمجھی جاتی۔اس کی اداکاری دیکھ کہ لوگ اس کو بہت بڑی بزنس ویمن خیال کرتے ہیں۔جبکہ وہ ایسی ماڈرن عورت ہے جو اراکین اسمبلی،ساست دانوں اور سرکاری افسروں کو خوبصورت لڑکیاں فراہم کرنا اس کا دھندہ ہے۔‎ہمارے علم میں اس کا ایک موبائل نمبر اور تین کوٹھیوں کے نمبر ہیں یہ ٹیلی فون نمبر ایک خفیہ ایجنسی کے ریکارڈ سے ،ملے ہیں۔نورین کی فائل میں لکھا ہے کہ وہ کن کن ساستدانوں کو مال مہیا کرتی ہے۔وہ ماڈلنگ کے حوالے سے لڑکیاں ڈھونڈتی ہے اور پھر ان کو بڑے لوگوں کے ساتھ رنک رلیاں منانے کا عادی بنا دیتی ہے۔اس وقت لاہور میں اس کی فراہم کردہ دو شیزائوں کا ریڑ دس ہزار روپے تک ہے۔نورین جب بھی اپنے کام کی غرض سے اپنے گاہک ایم پی اے یا وزیر کے دفتر میں جاتی ہے تو اس کا استقبال کرتے ہوئے مذکورہ کردار کے م مندر گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔اس نورین خالد کو کوئی گرفتار نہ کر سکا۔اس لیے کہ وہ مجبوریاں خریدتی ہے۔وہ حسین دو شیزائوں کو فروخت کر کے اہل اقتدار طبقوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہے۔اراکین اسمبلی عام طور پر ہیرا منڈی نہیں جاتے کیونکہ یہاں اکثر لڑکیاں شہرت یافتہ ہوتی ہیں۔طوائفوں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے لیے وہ کوٹھیوں کا رخ کرتے ہیں اور ایسے عشرت کدے لاہور کی تمام جدید آبادیوں ہا ماڈرن علاقوں میں قائم ہیں۔اراکین اسمبلی کو ان کے چمچے بھی خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔اس مقصد کے لہیے ایسی لڑکیوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے جو خوبصورت ہوتے ہوئے سرکاری ملازمت اختیار کرنے کی غلطی کرتی ہیں۔ایسے خوبرودو شیزئوں کو ارکان اسمبلی کے ایجنٹ معطل یا دور دراز علاقوں میں تبدیل کروا دیتے ہیں۔یہ دوشیزئویں مختلف جگہوں

سے ہوتی ہوئی اب ممبران اسمبلی اس لڑکی کا مسلہ حل کرنے کے لیے اس کے جسم سے کھیلنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ایسی لڑکیاں سیکڑیٹ، اسمبلی ہال کی رہاز گائوں کے ارد گرد دھکے کھاتی نظر آتی ہیں۔ان دو شیزوئوں میں اکثر محکمہ تعلیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ساست دانوں کی عیاشی کی بھیینٹ چڑنے والی بعض لڑکیاں تو اپنا مطلب نکال کر جان چھڑا لیتی ہیں لیکن کئی حالات کی چکی میں پس کر ہر روز نئے بستر کے زینت اور ایک نئے گاہک کی پیاس بجھانے کی عادی ہوتی ہیں ایسے لڑکیاں اور ایسے اراکین اسمبلی ایک لمبی فہرست ہے جس کو قلم بند کرنے کے لیے الگ کئی کتابوں کی ضرورت ہے۔(پارلیمنٹ سے بازار حسن تک)‎