) کا روہنگیا بحران ایک بار پھر بڑھتا جا رہا ہے۔ روہنگیا پناہ گزینوں کے بارے میں برما کے پڑوسی ممالک کا موقف بھی الگ الگ ہے۔ ایک طرف جہاں میانمار سے راہِ فرار اختیار کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لیے انڈیا نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں، وہیں بنگلہ دیش نے انھیں پناہ دینے کی پیشکش کی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی میانمار کے دورے پر ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر بات ہو سکتی ہے۔
ان سب کے بیچ میانمار کے بنیاد پرست بودھ راہب اشين وراتھ ایک بار پھر میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈونیشیا میں میانمار کے سفارت خانے کے باہر روہنگیا بحران کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
سفارت خانے کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پر اشين وراتھ کی تصویر کے ساتھ ‘شدت پسند’ لکھا ہوا تھا۔
میانمار کے بنیاد پرست بودھ راہب اشين وراتھ کو ان کی شدت پسندانہ تقریروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، اور ان پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اپنی تقریروں سے مسلم اقلیتوں کے خلاف ماحول تیار کرتے ہیں۔
2015 کے جنوری میں اشين وراتھ نے میانمار میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ياگی لی کو ‘کتیا’ اور ‘طوائف’ کہہ کر کئی حلقوں کی ناراضی مول لے لی تھی۔
ایک دہائی پہلے تک اس بودھ راہب کے بارے میں بہت کم لوگوں نے سنا تھا۔
1968 میں پیدا ہونے والے اشين وراتھ نے 14 سال کی عمر میں اسکول چھوڑ کر راہبانہ زندگی اختیار کر لی۔
وراتھ کو لوگوں نے تبھی جانا جب وہ 2001 میں قوم پرست اور مسلم مخالف دھڑے ‘969’ کے ساتھ منسلک ہوئے۔ میانمار میں اس تنظیم کو بنیاد پرست سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے حامی ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
2003 میں انھیں 25 سال جیل کی سزا سنائی گئی، لیکن 2010 میں انھیں دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔
میانمار کی حکومت نے جیسے ہی قوانین میں نرمی دی، وہ سوشل میڈیا پر زیادہ فعال ہو گئے۔
انھوں نے اپنے پیغام کی تشہیر یو ٹیوب اور فیس بک کے ذریعے کرنا شروع کر دی۔ فیس بک پر فی الحال ان کے 45 ہزار سے زیادہ فالورز ہیں۔
2012 میں جب رخائن صوبے میں روہنگیا مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان تشدد بھڑکا تو وہ وراتھ کی اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے بہت سے بودھوں کے دلوں کو چھو گئے۔
ان کی گفتگو اس خاص انداز میں شروع ہوتی ہے: ‘آپ جو بھی کرتے ہیں، ایک قوم پرست کے طور پر کریں۔’ یہ تقریریں آن لائن نشر ہوتی ہیں اور ان کی خاصے وسیع پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ ‘میانمار کے بن لادن’ ہیں، انھوں نے کہا کہ وہ اس سے انکار نہیں کریں گے۔
کچھ رپورٹوں میں انھیں یہ کہتے ہوئے بتایا گیا کہ وہ امن کے لیے کام کرتے ہیں۔
جولائی 2013 کو ٹائم میگزین نے ان کا خاکہ چھاپا تو اس پر سرخی جمائی تھی ‘بدھ مت دہشت گردی کا چہرہ؟’
ان کی تقریروں کا نشانہ مسلم برادری ہوتی ہے، خاص کر روہنگیا۔
انھوں نے ایسی ریلیوں کی بھی قیادت کی ہے جن روہنگیا مسلمانوں کو کسی تیسرے ملک میں بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا۔
وہ جھڑپوں کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بودھ خواتین کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔
وہ بودھ خواتین بغیر سرکاری اجازت کے دیگر مذاہب کے لوگوں سے شادی کرنے پر پابندی کے قانون کے حق میں چلائی جانے والی مہم کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھیں میانمار کے بودھ راہبوں کی کمیونٹی کی حمایت کس حد تک حاصل ہے۔ ان کے خلاف بھی آوازیں اٹھی ہیں۔
بہت سے لوگوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ وراتھ بیرونی دنیا کے سامنے میانمار کی بودھ برادری کا چہرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وراتھ کو حکومت اس لیے برداشت کر رہی ہے کیونکہ وہ عوام میں مقبول خیالات کو آواز دے رہے ہیں، خاص کر روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں، جن کے بارے میں وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر خود کچھ نہیں کہہ سکتی۔
مذہبی امور کی وزارت کا کہنا ہے کہ وہ وراتھ کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں کر سکتی جب تک کہ انھیں اس کی شکایت نہ ملے۔
وراتھ کو ان کے خواتین مخالف خیالات کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ ان پر خواتین کی شادی سے متعلق اس قانون کی وکالت کرنے کے الزام لگے تھے جسے خواتین پر جبر کرنے والا بتایا جا رہا تھا