”ہم بن بیاہی مائیں ہیں“ روہنگیا کی مسلمان بیٹی کی رونگھٹے کھڑی کردینے والی کہانی


نظا م الدولہ
یہ برمی لڑکی فاطمہ کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے ۔ برمی فوجیوں کی درندگی اور ان کی ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔فاطمہ کو جب اپنے تئیں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بازیاب کرایاتو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو بن بیاہی کم سن مائیں ،نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں،ان بچوں کو بدھ بھکشو گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ پہنچا دی گئی لین اسکی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔اسکو جسم فروشی کے اڈے پر پہنچا دیا گیا۔ فاطمہ کی اس کہانی کا مقصد پوری دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ وہ دیکھے روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمر کی سرزمین پر کتنا بڑا ظلم ہورہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جمعہ کا دن تھا ۔امی نے مجھے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ نماز فجر کے بعد تم اپنی چھوٹی بہن کو مدرسہ چھوڑنے چلی جانا کیونکہ صبح انہیں نرسنگ ہوم جانا تھا ۔امی بہت خوش بھی تھیں اور غمزدہ بھی ۔انہیں امید تھیں کہ آج ان کے ہاں جو بچہ ہونے والا ہے وہ بیٹا ہوگا۔نرس نے انہیں آج صبح کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ مسجد سے آگے نرسنگ ہوم میں آجائیں تاکہ ان کی ڈلیوری کا بندوبست کردیاجائے کیونکہ امی کے ہاں اولاد نارمل نہیں ہوتی تھی ۔انہیں دمہ بھی تھا اس لئے نرس اپنے سٹاف کے ساتھ ان کا خاص خیال رکھتی تھی ۔
امی کو غم اس بات کا تھا کہ پچھلے چھ مہینے میں اب ہمارت ٹاو¿ن میں بھی برمی فوجی غارت گری کرنے آ تے تھے۔ان کے ساتھ بھکشو (بدھ مت والے )بھی ہوتے تھے جو جس مسلمان کے گھر کی نشاندہی کرتے تو ان گھروں کے مردوں اور عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جایا جاتا تھا۔یہ لوگ پھر کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ان کا کیا جرم ہوتا تھا ،کوئی نہیں جانتا۔ان کا کیا بنتا رہا ،اس وقت تو صرف قیاس آرائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہوگا۔ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔اگر کوئی مسلمان یہ جاننے کی کوشش کرتا تو اسکے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔ابا میاں اس بات پر کڑھتے تھے کہ پرامن اور پڑھے لکھے مسلمانوں کو راتوں رات غائب کردیا جاتا ہے اور کوئی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کررہا ۔ وہ اس کے لئے آواز بننا چاہتے تھے۔ دور کے علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں برمی فوجیوں اوربدھیوں نے مسلمانوں کا جو خون بہاکران کے گھروں کو جلا یا تھا،اسکی خبریں ہم تک پہنچ گئی تھیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔وہ مسلمانوں کے کسی گاوں میں گھس جاتے اور مردوں کا قتل عام کرتے ،گھر جلاتے اور کم سن نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے ۔اسی وجہ سے ہمارے قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود قدرے خاموش تھے۔
مسجد یا گھروں میں برمی فوج اور بدھیوں کے ظلم پر تبصرے ہورہے تھے،قصبہ میں جن لوگوں کے پاس موبائل تھے ان پر بھی انکو کچھ خبریں مل جاتی تھیں،انٹرنیٹ تو محدود تھا البتہ جتنا بھی وسیلہ تھا خبر کسی نہ کسی صورت ہم سب تک پہنچ ہی جاتی۔ان حالات میں امی کا ڈرنا انجانے خوف کا باعث بن گیا تھا کیونکہ ظلم کی یہ دستک ہمارے گھروں تک بھی پہنچ گئی تھی۔
ہمارے قصبہ میں الحمد اللہ پانچوں وقت کی نماز میں اجتماع دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔سارے مسلمانوں میں اتفاق تھا ۔ صرف تین گھربدھیوں کے تھے اور وہ بھی مسلمانون کے ساتھ بہت اچھے تھے لیکن نفرت کی آگ ایسی جلی تھی کہ ایک دن معلوم ہوا وہ تینوں گھر خالی ہوگئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں قصبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ ہمارے قصبہ میں مذہب یا کسی اور وجہ سے ایک بھی دنگا فسادنہیں ہواتھا ۔جس دن سے ان بدھیوں نے قصبہ چھوڑا ،اس سے چند روز بعد ہی برمی فوج گاڑیوں میں پہنچ گئی اور سب سے پہلے امام مسجد عبدل الباری کو اور انکے گھروالوں کواٹھا لے گئی اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔
امی کا ڈر اور خوف بجا تھا لیکن میں نے کبھی اس بات کا خوف اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا تھا ۔میری عمر اس وقت چودہ سال تھی اور یوں مجھے بالغ ہوئے دوسال ہوچکے تھے۔ابا مدرسہ میں ٹیچر تھے اور نہایت متقی اور پرہیز گار۔وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے دادا نے رنگون میں قرآن حفظ کیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کردی تھی ۔ان دنوں جنگ عظیم جاری تھی ۔دادا ہجرت کرکے اس گاوں میں آگئے ،انہوں نے ہی مسجد تعمیر کی اور مدرسہ بھی بنایا جہاں بچے بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق تعلیم دی جاتی۔ابا فخر سے بتاتے تھے کہ انکے دادا کے ہاتھ پر کئی ہندووں بدھیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اسی گاوں میں آباد ہوگئے جو بعد میں ایک بڑا قصبہ بن گیا تھا ۔
الحمد اللہ میرے دادا نے اسلام کی خدمت کا جو پودا لگایا تھا وہ تناور ہوا اور اردگردکے کئی دیہاتوں تک اسکی چھاوں پھیل گئی تھی۔ابا میاں نے جدید تعلیم کے بعد اسی مدرسہ میں انگریزی پڑھانی شروع کی۔یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بچپن سے ہی انگریزی پڑھانے لگے ، روشن خیال بھی تھے۔کہا کرتے تھے کہ مسلمان لڑکیوں کو دین اور دنیا کا علم پڑھنا چاہئے۔وہ مجھے بھی پڑھا لکھا کر ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کرسکوں۔
جس دن کی میں بات کررہی ہوں اس دن ابا میاں امی کو لیکر نرسنگ ہوم چلے گئے ،یہ ہمارے گھر سے بہت دورنہیں تھالیکن تنگ راستوں کی وجہ سے آنے جانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا ۔مجھے یاد ہے جب جمعہ کا وقت ہوا تو ابا میاں مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے ،نرس نے بتا دیا تھا کہ ڈلیوری پانچ بجے کے قریب ہوگی،اس نے امی کو ڈرپ لگارکھی تھی،میں آپ کو یہ بتادوں کہ ہمارے قصبہ میں برمی حکومت کے حکم سے آذان سپیکر پر دینے کی سخت پابندی ہے،خطبہ بھی صرف واجبی ہے،علما کسی قسم کا تبلیغی واعظ نہیں کرسکتے ۔کئی دہائیوں سے برمی حکومت ایسے احکامات جاری کرتی آرہی ہے اس لئے مسلمان دل پر جبر کرتے ہوئے کبھی اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں برمی حکومت کی جانب سے کسی نیکی اور نرمی کی توقع نہیں ۔
میں بہن کو مدرسہ چھوڑ کر گھر واپس آچکی تھی اور نہانے کے لئے باتھ ورم میں چلی گئی کیونکہ مجھے مخصوص ایام کے بعد آج غسل کرکے نماز پڑھنی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کوئی ہمارا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہا ہے۔میں نے جلدی سے غسل مکمل کرنا چاہا کہ اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی ،ڈر گئی اور ابھی میں سنبھلنے نہ پائی تھی کہ مجھے کمرے میں بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی دوگولیاں بھی کسی نے چلا دیں۔کوئی غصہ سے چیخ کر میرے ابامیاںکو آوازیں دے رہا تھا ،میں غسل خانے میں ہی ایک جانب کپڑے پہننے کی کوشش میں دبک گئی کہ اچانک غسل خانے کادروازہ کھلا اور ایک برمی فوجی بندوق کی نال سیدھی کئے مجھ کوکسی بھوکے درندے کی طرح دیکھنے لگا۔میں نے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں سے اپنا سینہ ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس نے بندوق کی نالی سے ان کپڑوں کو جھٹک کریوں پیچھے پھینکا کہ بندوق کی گرم نالی سے میرے بدن کو شدید جھٹکا لگا۔
فوجی میری حالت دیکھ کر چیخا اور قہقہے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پکارنے لگا” دیکھو یہ کتیا کتنی خوبصورت ہے“اسکی بات سن کر میں سہم گئی۔

 

 

اسکی آنکھوں میں ہوس تھی ۔اس نے بندوق کی نالی میرے سینے پر رکھی تو میں یکدم ہڑبڑا اٹھی۔مجھے ابا میاں کی بات یاد آگئی کہ مسلمان بیٹیاں بہادر اور غیرت مند ہوتی ہیں،ان کی حیا ہی ان کا سب کچھ ہوتی ہے۔مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی ۔میرا پورا بدن کانپ رہا تھا ۔میں نے دل میں اللہ کو یاد کیااور کلمہ شہادت پڑھ لیا اور سوچا کہ اسطرح نہیں مروں گی۔اس سے بہتر ہے لڑکر شہید ہوجاو¿ں ۔
میں اس فوجی کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی لیکن غیرت مند مسلمان بیٹیاں ایسے آوارہ اور شیطان کتوں سے ڈرا نہیں کرتیں۔میں کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ میں جو سرڈھانپ کر مدرسہ جایا کرتی تھی اور دوپٹہ کبھی سینے سے نہیں سرکا تھا مگر آج ایک بے شرم اور ظالم برمی فوجی مجھے بے لباس دیکھ رہا تھا ۔
میں نے بندوق کی نالی کو پرے جھٹکا اور یکدم چیخ کر اس فوجی پر پل پڑی ،اس وقت اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس پر حملہ بھی کرسکتی ہوں۔بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جونہی وہ جھٹکا کھا کر گرا میں نے غسل خانے میں رکھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اور اسکے سر پر اتنے زور سے مارا کہ وہ حرامی دوبارہ اٹھ نہ سکا لیکن اسی لمحہ غسل خانے سے باہر کھڑے فوجی نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا اور میرا سر گھومنے لگا ،اس نے مجھے اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر نکالا اور بھاری بوٹوں سے میرے جسم کو ٹھوکریں مارنے لگا۔اس دوران ایک دوسرا فوجی بولا ” اسکو ابھی نہ مارو۔ حرام زادی کو زندہ رکھو اور کیمپ میں لے جاو¿۔یہ بھی ہمارے بچے جنم دے گی دوسری مسلمان لڑکیوں کی طرح۔ہم نے ان کی نسل ختم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اوروہ ہم نے پورا کرنا ہے“
میں ٹھوکریں کھا کر بے ہوش ہوگئی تھی ،جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں ابھی تک بے لباس ہوں اور میری جیسی درجن بھرلڑکیاں اور بھی ہیں جن کے جسموں پر کوئی برائے نام لباس ہے۔ان کے چہروں اور بدن پر بھی زخم تھے ،کوئی کراہ رہی تھی کوئی خاموش تھی لیکن سب اپنے اپنے زخم سہلا رہی تھی۔ان میں سے کئی لڑکیاں حاملہ تھیں ،ان کے جسموں پر ہماری طرح رستے زخم نہیں تھے لیکن انکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ تشدد کا شکار رہی ہیں۔
مجھے جب ہوش آیا اور میں نے پانی مانگا تو میری آواز سن کر ایک برمی فوجی آیا اور میری آواز سن کر بولا” پانی پینا ہے“
میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا ننگا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بے بس نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تو اس نے قہقہہ لگایا اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی عورت کی ایسی توہین نہیں ہوئی ہوگی لیکن ہم روہنگیائی مسلمان عورتیں اس کرب اور ذلت سے روزانہ گزرتی ہیں ۔اس خنزیر کی اولاد نے کھڑے کھڑے مجھ پر پیشاب کردیا اورکہا” لو پی لو“ الفاظ ساتھ نہیں دیتے کہ میں دنیا کی اس ذلیل ترین فوج کے کرتوتوں کا ذکر کروں ۔اس نے مجھ پر پیشاب کرنے کے بعد میری عزت کا دامن تار تار کردیا۔میں بہت چیخی،مزاحمت کی،مدد کے لئے لڑکیوں کو پکارا۔مگروہ تو سب گونگی بہری اندھی بت کی طرح تھیں۔وہ کر بھی کیا سکتی تھیں کیونکہ یہ سب ان کے ساتھ ہوچکا تھا۔
میں اس رات بہت روئی ۔میرا بدن اور میری روح زخموں سے چور تھی۔اس بے رحم درندے کے بعد نہ جانے کتنے اور درندوں نے مجھ ناتواں کو بھنبھوڑا تھا ۔کوئی حساب نہیں۔نہ دنوں کا نہ مہینوں کا۔نہ موسموں کا ۔سردیوں کے موسم میں انہوں نے ہم سب کوبھاری چادریں دے دی تھیں جس سے ہم نے اپنے بدنوں کو ڈھانپ لیا۔اس تمام عرسہ میں میری بڑی تمنا رہی کہ مجھے کپڑوں کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے جس سے پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھ سکوں لیکن میری تمنا پوری نہ ہوسکی کیونکہ نہ کپڑے ملے نہ ہی پاکیزگی کا موقع ۔ہر دن مجھے پلیدی میں ہی گزارنا پڑتا تھا۔
نو مہینے بعد میں بھی ایک کمزور سے لڑکے کی ماں بن گئی ۔اس روز ایک بدھ دایہ عورت آئی تھی۔وہ پہلے بھی ان لڑکیوں کی ڈلیوری کے لئے آتی تھی جو بچے کو جنم دینے والی ہوتی۔میرے اندر اتنی نقاہت تھی کہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہ پلا سکی ،اور میرا بچہ بھوک سے دم توڑ گیا۔لیکن میںپھر بھی زندہ رہی۔لیکن میرا دماغ ماو¿ف ہوگیا ۔دایہ کے کہنے پر فوجیوں نے ہماری بہتر غذا کا بندوبست کردیا تھا اور یہ پہلی بار اس وقت ہوا جب ایک بد ھ نے آکر انہیں کہا کہ اسطرح تو ہمارے یہ بچے مرجائیں گے،ا ن کو کھانے کو کچھ دو۔۔۔۔۔۔اس واقعہ کے شاید تین ماہ بعدانسانی حقوق کی ایک ٹیم ادھر آئی ۔ فوج اور بدھ مت رہ نماو¿ں کے ساتھ مذاکرات کے بعد اس نے ہمیں اس شرط پر وہاں سے نکالا کہ ہم سب عورتیں ان بچوں کو بدھ عورتوں کے سپرد کردیں ۔۔۔۔کچھ لڑکیاں تو اس پر بضد ہوگئیں جنہیں مجبوراً وہیں چھوڑنا پڑا ۔ اس تنظیم نے ہمیں میانمر سے نکالااور تھائی لینڈ لے آئی۔یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیم ہمیں برمی فوجیوں سے آ¿زاد کراکے لائی تھی دراصل وہ ہماری قیمت چکا کرلائی تھی۔چند ماہ بعد ان لڑکیوں کو اچھا کھانا پینا دیکر صحت مند بنایا گیا اور پھر انہیں جسم فروشی کی تربیت دیکر اڈوں پر بٹھا دیا گیا۔
بچے کی پیدائش اور موت کے بعد مجھے ذہنی صدمہ سے نکلنے میں کچھ وقت لگا ۔لیکن اس دوران میں پھر ایک ماہ کے حمل سے ہوگئی لیکن جب تھائی لینڈ لائی گئی تو میرا اسقاط کرادیا گیا۔جب ہوش سے سنبھلنے لگی تو ایک صحافی کی مدد سے یہ معلوم کرایا کہ اس روز ہمارے قصبہ میں کیا ہوا تھا ۔معلوم ہوا کہ برمی فوجیوں نے مدرسہ اور مسجد کو آگ لگا دی تھی جس سے مدرسہ کے سارے بچے اور نمازی آگ میں جھلس کر شہید ہوگئے تھے۔میں سوچتی ہوں کہ برمی فوجیوں کے ہاتھ میں جدید ترین اسلحہ دیکر ان میں نفرت یونہی پروان چڑھائی جاتی رہی تو کیا میانمر کی سرزمین پر کوئی مسلمان بچے گا؟ آج مسلمان بیٹیاں لٹ پٹ رہی ہیں ،بن بیاہی مائیں بنائی جارہی ہیں اور جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچائی جارہی ہیں تو کیا آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب کے لوگ برمی فوجیوں سے بچ پائیں گے۔؟