دبئی میں ایک کمپیوٹر ٹیچر کو ایک کمسن لڑکی کو واٹس ایپ کے ذریعے اپنی برہنہ تصاویر بھیجنے کیلئے اکسانے پر تحقیقات کا سامنا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر ٹیچر کا تعلق فلپائن سے ہے اور اس کی عمر 46 سال ہے،یہ ٹیچر ڈیرہ دبئی کے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتا ہے۔کمسن طالبعلم کی شناخت 11 سالہ ایل وائی کے نام سے ہوئی ہے جو ششم کلاس کی طالبہ ہے۔
گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمسن طالبہ کے ٹیچرز اس کے رویے میں کافی دنوں سے تبدیلی محسوس کر رہے تھے جبکہ اس لڑکی نے اپنے ہم جماعتوں کو بھی بتایا کہ وہ عنقریب خود کشی کرنے والی ہے۔طالبہ کی ماں کا کہنا ہے کہ سکول انتظامیہ نے مئی میں اس سے رابطہ کیا اور اس کے بدلتے رویے اور نفسیاتی دباﺅ کے بارے میں آگاہ کیا
۔
دلہن پر تشدد کرنے کیلئے ساس سسر کا ہزاروں کلومیٹر طویل سفر
”سکول سے شکایت آنے پر میں نے اپنی بیٹی کی نگرانی شروع کردی، جس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری بیٹی کسی قسم کے دباﺅ میں ہے اور وہ ہر وقت اپنے جسم میں درد کی شکایت کرتی رہتی ہے۔ آخر کار 5 جولائی کو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کا کمپیوٹر ٹیچر اسے واٹس ایپ پر سکول کے اوقات کے بعد فحش پیغامات بھیجتا ہے، ٹیچر نے بچی سے یہ فرمائش بھی کی کہ اپنے جسم کے مخصوص حصوں کی تصاویر اتار کر اسے بھیجے “۔
یہ انکشاف ہونے کے بعد بچی کے والدین نے سکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا جس نے انہیں کمپیوٹر ٹیچر کے پاسپورٹ کی کاپی فراہم کردی تاکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ آیا ان کی بچی کو جنسی طور پر بھی ہراساں کیا گیا ہے یا نہیں، لیکن انہیں یقین ہے کہ واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے بچی کو نفسیاتی و زبانی طور پر ہراساں کیا جا رہا تھا۔
19 سالہ نوجوان لڑکی نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگادی، ٹرین میں زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جارہا تھا بلکہ۔۔۔ وجہ ایسی کہ جس کی وجہ سے آج تک کسی لڑکی نے یہ کام نہیں کیا
الغیاث پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے شکایت آنے پر فوری طور پر ملزم کو گرفتار کرلیا جس نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ وہ معصوم بچی کو اپنی برہنہ تصاویر بھجوانے کیلئے مجبور کرتا رہا ہے۔ ٹیچر نے بتایا کہ اس نے اپنا نمبر ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں بچی کو دیا تھا جس کے بعد اس کے اندر کا حیوان جاگ گیا اور اس نے واٹس ایپ پر بچی کو فحش پیغامات بھیجنے شروع کردیے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرکے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں تاکہ ہوس کے پجاری استاد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جا سکے