شامی صدر بشارالاسد کی فوج پر مسلسل الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ جیلوں میں قیدیوں، بالخصوص خواتین کے ساتھ انتہائی غیرانسانی سلوک روا رکھ رہی ہے۔ اب جیل سے رہائی پانے والی کچھ خواتین نے شام کی حکومتی فوج کے مظالم کی ایسی داستان دنیا کو سنا دی ہے کہ روح کانپ جائے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں شام کی ایک این جی او ’لائرز اینڈ ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس‘ نے جیلوں سے رہائی پانے والی 8خواتین کے انٹرویوز کیے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ ”بشارالاسد کی قید میں مجھے روزانہ برہنہ کرکے کوڑے مارے جاتے اور کوڑوں کی گنتی بھی مجھ سے ہی کروائی جاتی تھی۔ وہ مجھے گنتی کرنے کو کہتے اور اگر تکلیف کی شدت کے باعث گنتی غلط ہو جاتی تو وہ گنتی دوبارہ ایک سے شروع کرواتے اور دوبارہ سے مجھے کوڑے مارے جاتے۔ وہ مجھے دھمکیاں دیتے کہ دہشت گردوں سے اپنا تعلق قبول کر لو ورنہ تمہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالیں گے۔“
رپورٹ کے مطابق ایک اور خاتون نے بتایا کہ ”بشارالاسد کی فوج مجھے گرفتار کرکے لے گئی اور جیل میں لیجاتے ہی مجھے برہنہ کردیا اور تشدد کرنے لگے۔ وہ میری چھاتی پر سلگتے سگریٹ بھی بجھاتے رہے۔ ایک روز انہوں نے میری ٹانگ میں خنجر گھونپ کر مجھے زخمی بھی کر دیا تھا۔وہ مجھ پر روزانہ بے حد تشدد کرتے تھے اور سر میں بھی چوٹیں لگاتے تھے۔ ایک روز سر میں شدید چوٹ لگنے سے میں بے ہوش ہو گئی تھی۔“ ایک خاتون نے بتایا کہ ”مجھ پر بھی جیل میں بہیمانہ تشدد کیا جاتا تھا۔ ایک روز مجھے ایک شخص نے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا اور جاتے ہوئے تھپڑ مار کر مجھے دہشت گرد کہا اور چلا گیا۔“ ایک اور خاتون نے ہیومن رائٹس کے کارکنوں کو بتایا کہ ”وہ مجھے جیل میں لٹا کر میری ٹانگوں اور پاﺅں کے تلوﺅں پر ڈنڈے برساتے تھے۔“ ان تمام خواتین نے بتایا کہ انہیں تاریک کوٹھڑیوں میں رکھاجاتا تھا جہاں روشنی کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ان میں اس قدر لوگوں کو بھر دیا جاتا تھا کہ تمام قیدی بمشکل کھڑے ہو پاتے تھے۔ خواتین کے انٹرویو کرنے والی این جی او کا کہنا تھا کہ ”ہم انہی ثبوتوں کو ایک دن استعمال کرتے ہوئے بشارالاسد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔“