بھارت میں ایک بُت سے پانی ٹپکنے لگا، لوگوں نے مقدس سمجھ کر بیماریوں سے شفا کیلئے پینا شروع کردیا، لیکن دراصل یہ پانی کہاں سے آیا اور کیوں ٹپک رہا تھا؟ جان کر آپ بھی حیران پریشان رہ جائیں گے


ہالت کے مارے کمزور عقیدے والے لوگ کسی بھی سمجھ میں نہ آنے والی بات کو معجزہ قرار دے دیتے ہیں.بھارتی شہر ممبئی کے مغربی حصے میں ایک بت کے پیروں سے پانی کے قطرے ٹپکنے شروع ہو گئے تو اس کے پجاریوں نے یہ اعلان کرنے میں زرا بھی دیر نہ لگائی کہ یہ ایک معجزہ ہے اور جلد ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی.

دور و نزدیک کے لوگ اس منظر کو دیکھنے کیلئے جمع ہونے لگے. بت کے گرد ہر وقت سینکڑوں افراد کا ہجوم اکٹھا رہتا اور بیماریوں اور مصیبتوں میں مبتلا لوگ اس کے پیروں سے ٹپکتے پانی کو اپنے لیے شفا سمجھ کر لگے.
دریں اثناءاس قسم کے معاملات تحقیق کرنے والے ماہر سنال ایڈا ماروکو تک بھی خبر پہنچی اور وہ اپنے ایک انجینئر ساتھی کو لے کر معاملے کی تحقیق کیلئے پہنچ گئے. سنال اور ان کے ساتھی انجینئر نے جلد ہی سراغ لگا لیا کہ قریب ہی ایک ٹوائلٹ کے سیوریج پائپ میں کچھ رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے سیوریج کا پانی دیوار میں رس رہا تھا. اس دیوار کے ساتھ ہی بت موجود تھا اور رستا ہوا پانی آہستہ آہستہ اس کی بنیاد میں جمع ہو رہا تھا. یہ پانی قطروں کی صورت میں بت کے پیروں سے ٹپک رہا تھا. بت کی پوجا کرنے والے اس غلیظ پانی کو اپنے جسم پر مل رہے تھے اور اسے شفاءسمجھ کر پی بھی رہے تھے.

سنال نے جونہی میڈیا کو بتایا کہ اصل معاملہ کیا تھا تو ان کے خلاف غیض وغذب کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا. جب وہ ایک ٹی وی پروگرام میں اس موضوع پر بات کر رہے تھے تو باہر سینکڑوں لوگ لاٹھیاں اور پتھر لے کر جمع ہو گئے. وہ انہیں اپنے مقدس بت کی توہین کا مرتکب قرار دے رہے تھے. اگلے چند دنوں میں سنال کیلئے بھارت میں رہنا نا ممکن بنا دیا گیا. نا صرف انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں بلکہ تین تھانوں میں ان کے خلاف مقدمے بھی درج کروا دیئے گئے.
بیچارے سنال کو یہ تحقیق اتنی مہنگی پڑی کہ جان بچانے کیلئے ملک سے فرار ہونا پڑ گیا. ان کی خوش قسمتی تھی کہ فن لینڈ نے انہیں پناہ دے دی. آج اس بات کو تین سال گزر چکے ہیں لیکن ’معجزاتی بت‘ کے پیروکار انہیں بھارت واپس نہیں آ نے دے رہے. یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بت کے پیروں سے پانی ٹپکنا کب کا بند ہو چکا ہے. غالباً اصل حقائق سامنے آنے کے بعد ٹوائلٹ کے مالک نے سیوریج پائپوں کی مرمت کروا لی تھی.