انڈونیشیا کے قریب بحرالکاہل میں واقعہ ملک نیوگنی کے دور افتادہ جنگلوں میں آج بھی ایک ایسا قبیلہ رہتا ہے جو انسانوں کا گوشت کھاتا ہے۔ چار ہزار نفوس پر مشتمل کوروائی قبیلہ جدید دنیا کی نظروں سے بہت دور گہرے گھنے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ قبیلہ ہمیشہ کھا کھوا نامی بلا کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ کھاکھوا جب کسی شخص کو نشانہ بناتا ہے تو اس کو اندر سے کھانا شروع کردیتا ہے جس کی وجہ سے شکار کی موت ہوجاتی ہے۔ اگر اس بلا کا نشانہ بننے والا شخص اپنی موت کے وقت کسی شخص کا نام لے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بلا کا نام بتارہا ہے اور یوں بتائے گئے شخص کو کھاکھوا قرار دے دیا جاتا ہے۔ سارا قبیلہ اس بات پر متفق ہوتا ہے کہ کھاکھوا کو ہلاک کردیا جائے لہٰذا ایک خاص پرندے کی ہڈی سے تیار کردہ تیر کا وار کرکے کھا کھوا قرار دئیے گئے شخص کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور پھر اس کے اعضاءکاٹ کر اس کا گوشت تیار کیا جاتا ہے۔ اس گوشت کو ایک خصوصی تقریب میں پکاکر سارا قبیلہ کھاتا ہے۔ ہلاک کئے گئے شخص کی ہڈیوں، بالوں اور جنسی اعضاءکے سوا ہر چیز کھالی جاتی ہے اور اس کی کھوپڑی ہلاک کرنے والے کو سونپ دی جاتی ہے۔ اس قبیلہ میں کسی بچے کو بھی کھاکھوا قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں بچے کے بلوغت تک پہنچنے کا انتظار کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے قتل کرکے اس کا گوشت کھالیا جاتا ہے۔