’یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ میں 63 سال کی ہوگئی ہوں اور آج بھی مجھے یہاں۔۔۔‘


جدہ( 01 اگست 2017) سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی صورتحال پرشروع سے ہی سوالات اٹھتے آ رہے ہیں. عموماً یہ سوال خواتین کے حقوق کی غیرملکی تنظیمیں اٹھاتی رہی ہیں لیکن اب سعودی خواتین خود میدان میں آ گئی ہیں اور ایسی تحریک کا آغاز کر دیا ہے کہ سعودی مردوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے.

دی میٹرو کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کو پیدائش سے موت تک مردوں کی سرپرستی میں زندگی گزارنی پڑتی ہے، خواہ وہ مرد ان کا باپ، بھائی، شوہر، بیٹا یا خاندان کا کوئی اور مرد ہو. ان کے بغیر وہ علاج تک نہیں کروا سکتیں،  لیکن اب سعودی خواتین اس ’گارڈین شپ‘ کے قانون کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور تحریک کا آغاز کر دیا ہے. جدہ کی خواتین کے حقوق کی کارکن سحر نصیف کا کہنا ہے کہ ”میرا گارڈین میرا بیٹا ہے. چونکہ میں ایک کھلی ذہنیت والے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، لہٰذا اس گارڈین شپ کی حیثیت قانونی لازمے سے بڑھ کر کچھ نہیں. میرا بیٹا صرف قانونی دستاویزات کی حد تک میرا گارڈین ہے  لیکن اس کے باوجود یہ بات میرے لیے بہت ہتک آمیز ہے کہ میری عمر 63ہو چکی ہے اور اب بھی میرا ایک گارڈین ہے.“رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی کارکن عزیزہ الیوسف نے کچھ عرصہ قبل ایک آن لائن پٹیشن دائر کی تھی جس پر ہزاروں سعودی خواتین نے دستخط کیے.اب یہ پٹیشن عدالت میں دائر کر دی گئی ہے.