ہزاروں پاکستانی لڑکیوں کو جسم فروشی کیلئے دبئی پہنچا دیا گیا انہیں کس طرح اور کون عرب ملک لے کر جاتا ہے


اسلام آباد (اردو آفیشل 29جولائی 2017)غربت ، بیروزگاری اور دیگر مسائل میں گھری خواتین چند ہزار روپے کی خاطر کہیں بھی کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں، پرکشش ملازمت کا جھانسہ ، ڈیرہ ڈویژن کی درجنوں لڑکیاں دبئی کے مختلف کلبز میں قید ، جبراً جسم فروشی کرائی جانے لگی ، ابتدائی طور پر لڑکیوں کو دبئی بیوٹی پارلرز میں ملازمت دی جاتی ہے تاکہ ساتھ جانے والے ورثاءمطمئن ہو جائیں اور پھر بارکلبز کے حوالے کر دیا جاتا ہے ،.جاری ہے.

خواتین کو لاہور، راولپنڈی ، فیصل آباد ، بہاولپور اور ملتان کے بیوٹی پارلرز اور این جی اوز کے توسط سے بھجوایا گیا.روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ ، ڈی جی ایف آئی اے اسلام آباد اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو لکھی گئی درخواست میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈیرہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی درجنوں لڑکیوں سے دبھی کے مختلف کلبز میں قید کر کے جبری جسم فروشی کرائی جانے لگی ہے ، 50 کے لگ بھگ لڑکیوں کو ملتان کا عتیق الرحمن ، محمد شاہد ، آنٹی نرگس، آنٹی راحیلہ، بہاولپور کا سہیل امجد ، میڈم بتول، بیوٹر پارمیں جھانسہ دے کر گزشتہ ماہ مختلف اوقات میں دبئی لے گئے تھے جن میں ڈی جی خان، مظفر گڑھ کی دو درجن خواتین کلبز میں قید ، راجن پور ، لیہ کی لڑکیاں بھی شامل ..جاری ہے. درخواست میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان تمام لڑکیوں کے ورثاءکو پرکشش ملازمت کا جھانسہ دے کر راضی کیا گیا تھا ، ابتدائی طور پر تمام لڑکیوں کو وزٹ ویزہ پر بھجوایا گیا تھا جن میں اکثریت شہر کے بیوٹی پارلر ز مالکان کے توسط سے گئیں جوان کے ہاں ملازمت کرتی تھیں، تمام خواتین کو لاہور ، راولپنڈی ، فیصل آباد، بہاولپور اور ملتان سے تعلق رکھنے والے افراد نے دبئی پہنچایا ، ابتدائی طور پر تنخواہ 2 ہزار درہم بتائی گئی تھی، ڈیرہ غازیخان ڈویژن جو دیگر بڑے شہروں کی نسبت پسماندہ ترین علاقہ ہے اور یہاں نا صرف خواتین کی ملازمت کے مواقع کم ہیں بلکہ سرکاری محکموں میں بھی خواتین کی ملازمت کے مواقع کم ہیں بلکہ سرکاری محکموں میں بھی خواتین کی نمائندگی انتہائی کم اور نہ ہونے کے برابر ہے .ذرائع کے مطابق بیروزگاری ، غربت اور دیگر سنگین مسائل میں گھری درجنوں خواتین جو چند ہزار روپوں کی خاطر بیوٹی پارلرز ، این جی او ز اور انشورنس کی مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں سے مختلف بیوٹی پارلرز اور این جی اوز کے ذریعے رابطہ کیا گیا.جاری ہے.